آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی اور آئی بی اے یونیورسٹی سکھر کے مشترکہ تعاون سے دو روزہ ”پاکستان لٹریچر فیسٹیول 2023ء سکھر چیپٹر کا شاندار افتتاح وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نے کردیا۔
فیسٹیول کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک سے ہوا، بعد میں قومی ترانہ بجایا گیا، فیسٹیول میں سکھر کے صحافی جان محمد مہر، آئی بی اے کے پروفیسر ڈاکٹر اجمل ساوند کے قتل کی پر زور مذمت اور آئی بی اے کے بانی نثار احمد صدیقی کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار بھی کیا گیا جبکہ رانی پور میں قتل ہونے والی فاطمہ اور غزہ و فلسطین میں جاری اسرائیل کی جارحیت کے دکھ میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔
افتتاحی تقریب سے وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر، صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ، وائس چانسلر آئی بی اے یونیورسٹی سکھر ڈاکٹر آصف احمد شیخ نے خطاب کیا۔
ڈاکٹر جعفر احمد اور نصیر احمد میمن نے کلیدی خطبے پیش کیے جبکہ نور الہدیٰ شاہ، منور سعید، کشور ناہید، صحافی مظہر عباس، غازی صلاح الدین، چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل سید کمیل حیدر شاہ، صدر آرٹس کونسل سکھر ممتاز بخاری، قاضی عبدالواحد، مصطفیٰ قریشی، میئر سکھر اسلان اسلام شیخ سمیت معروف اسکالر، ادیب، شعراء سمیت لوگوں کی بڑی تعداد تقریب میں شریک تھی۔
فیسٹیول میں مختلف کتابوں، کپڑوں کے اسٹال اور مزیدار کھانوں سمیت دیگر اشیاء کے اسٹالز شہریوں کی توجہ کا مرکزبنے رہے۔
وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان لٹریچر فیسٹیول سکھر ہماری قوم کے پائیدار جذبے کا ثبوت ہے، پاکستان لٹریچر فیسٹیول سکھر کی افتتاحی تقریب میں مدعو کرنے پر صدر آرٹس کونسل کا شکریہ ادا کرتا ہوں، فن، ثقافت اور ادب کے دھاگے مل کر ہماری قومی شناخت کیلئے پل کا کام کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آرٹس کونسل جیسی تنظیمیں کئی ثقافتوں کو ایک ساتھ جوڑنے میں ناگزیر کردار ادا کرتی ہیں، آرٹس کونسل کراچی ثقافت کیلئے ایک مینار کے طور پر کھڑی ہے، ہمارے ثقافتی ورثے کو اجاگر کرنے اور اس کے تحفظ کیلئے آرٹس کونسل کراچی انتھک محنت کر رہی ہے۔
مقبوب باقر نے کہا کہ تخلیقی صلاحیتوں و فکری گفتگو کو فروغ دینے کیلئے ان کا عزم بے مثال ہے، ملک بھر میں پاکستان لٹریچر فیسٹیول جیسے میگا ایونٹس کی میزبانی ان کا منہ بولتا ثبوت ہے، آرٹس کونسل کے اس تہوار نے قومی و علاقائی زبانوں کو ایک خوبصورت گلدستہ بنایا ہے، سکھر میں متحرک ثقافتی و ادبی روایت کو اجاگر کرکے عوامی رابطے کو اہمیت دی گئی، ثقافتی ایونٹ ماضی کو حال سے جوڑنے والے پل بن جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سکھر میں ادبی میلے کا افتتاح ہونا فکری وثقافتی سرگرمیوں کیلئے خوش آئند ہے، ثقافتی ایونٹ میں خیالات، تخیلات اور متنوع آوازیں ہم آہنگ ہوتی ہیں، اس وقت قوم کو اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے، اس دوران تفریحی سرگرمیاں ضروری ہیں، ادبی میلے معلوماتی سیشنز اور تفریحی پہلوؤں کے امتزاج کے ساتھ ایک مہلت ثابت ہوتے ہیں۔
نگراں وزیراعلیٰ نے کہا کہ آج کے دن ہمیں مشترکہ ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعے اتحاد کے احساس کو فروغ دیں، دعا ہے کہ یہ ادبی سفر سب کیلئے روشن و تفریحی ثابت ہو۔
صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ سکھر تقسیم پاکستان کے وقت سندھ کا سب سے زیادہ سر سبز خطہ تھا، سندھ شیخ ایاز، سچل، بیدل اور سامی کی دھرتی ہے، کلچر کے ذریعے لوگوں کو جوڑا جاسکتا ہے ، میں مجمع باز آدمی ہوں، مجھے مجمع لگائے رہنا پسند ہے، میرا فوکس نوجوانوں پر ہے، نوجوانوں کو ان کی ثقافت سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم 76 سال سے کام کررہے ہیں، ہمیں بارڈر سے کوئی نقصان نہیں ہوسکتا، ہم خود اپنا نقصان کررہے ہیں، لٹریچر اور ناچ گانا فحاشی نہیں بلکہ سماج کے لیے ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے، ہم اس خطہ زمین کسی بھی زبان سے تعلق رکھتے ہیں اگر ہم جڑتے ہیں تو پورے معاشرے میں سدھار پیدا ہوسکتا ہے، یہ ایک ایسا حصہ تھا جسے ہندوستان کے بعد لوگوں نے بنایا۔
محمد احمد شاہ نے کہا کہ ہم نے عالمی اردو کانفرنس میں سندھی پنجابی، پشتو، بلوچی، سرائیکی سمیت تمام زبانوں کو شامل کیا، آرٹس کونسل کراچی کو ہم نے ایک جزیرہ بنایا ہے جو آئے گا اس کو برابر کی عزت ملے گی۔
وائس چانسلر آئی بی اے یونیورسٹی سکھر ڈاکٹر آصف احمد شیخ نے کہا کہ 28 اور 29 اکتوبر سکھر کی تاریخ میں یادگار دن ثابت ہوگا، میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی پوری ٹیم کو پاکستان لٹریچر فیسٹیول کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتا ہوں، سکھر آئی بی اے نثار احمد صدیقی کا ایک خواب تھا جس کے تصور نے آئی بی اے سکھر کو اتنا بڑا ادارہ بنایا۔
نصیر احمد میمن نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سب کی کرسی برابر دیکھ کر بہت خوشی محسوس کررہا ہوں، پاکستان لٹریچر فیسٹیول ایک شاندار ایونٹ ہے، ہمیں اپنی معیشت اور نوجوانوں کو آگے لے جانے لئے راستے ہموار کرنے ہوں گے، ایک جگہ جہاں مایوسی ہو وہاں اس طرح کہکشاں کا اکٹھا ہونا قابل تعریف ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا سندھ ترقی کرے تو ہمیں سندھ کے ساتھ جڑے رہنا ہوگا، ابھی بھی کچھ لوگ مذہب اور زبان کی بنیاد پر فسادات پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، ہمیں مل کر ان کو ناکام بنانا ہے۔
ڈاکٹر جعفر احمد نے کلیدی خطبہ میں کہا کہ مجھے بچیوں کو پڑھتے دیکھتا ہوں تو بہت خوشی ہوتی ہے، سندھ میں کافی بچیاں ایسی ہیں جن کو پڑھنے کے لیے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اگر یہ پابندیاں ہٹا دی جائیں تو آج ہماری بچیاں بھی آگے بڑھ کر ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ انہوں نے اپنا تفصیلی مقالہ پیش کیا۔