اسلام آباد (عمر چیمہ) سپریم کورٹ آف پاکستان کو شفافیت کے حوالے سے ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے اور یہ سوال سپریم کورٹ کے اکاؤنٹس کا ہے۔ ایک شہری، جس نے پہلے سپریم کورٹ سے اس کے اسٹاف کے بارے میں معلومات طلب کی تھیں، نے اب عدالت کو یاد دہانی کرائی ہے کہ اس نے اپنی درخواست میں سپریم کورٹ کے اکاؤنٹس کی گزشتہ پانچ سال کی آڈٹ رپورٹ بھی مانگی تھی۔ مختار احمد نے آئین کے آرٹیکل 19A کا حوالہ دیتے ہوئے یہ معلومات طلب کی ہیں اور سپریم کورٹ بھی پہلے یہ فیصلہ سنا چکی ہے کہ اس آرٹیکل کے تحت سپریم کورٹ سے معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اپنی درخواست میں درخواست گزار نے سپریم کورٹ سے کہا ہے کہ میری جمع کرائی گئی درخواست پر دوبارہ غور کیا جائے اور پٹیشن نمبر 3532/2023 پر سپریم کورٹ کی جانب سے سنائے گئے فیصلے کی روشنی میں فیصلہ سنایا جائے۔ جس درخواست کا حوالہ درخواست گزار نے دیا ہے وہ نومبر 2021ء میں جمع کرائی گئی تھی اور اس میں تین سوالات پوچھے گئے تھے: سپریم کورٹ کے اکاؤنٹس کون سے قواعد و ضوابط کے تحت استعمال ہوتے ہیں اور گزشتہ پانچ سال یعنی 2015ء تا 2020ء کی آڈٹ رپورٹس فراہم کی جائیں۔ اگر یہ آڈٹ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی بجائے کسی پرائیوٹ کمپنی نے کیا ہے تو اس کی تفصیلات، اسے دیے گئے معاوضے یا فیس وغیرہ کی معلومات بھی پیش کی جائیں۔ یہ معلومات فراہم کرنا سپریم کورٹ کیلئے امتحان ثابت ہو سکتا ہے، عدالت نے ماضی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (PAC) کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنے سے انکار کردیا تھا اور اس اقدام کو عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔ پہلی کوشش چوہدری نثار علی نے 2010 میں اس وقت کی جب وہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین تھے۔ رواں سال ایک اور کوشش چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نور عالم خان (قومی اسمبلی کی تحلیل سے قبل) نے کی۔ ان میں سے کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا، حالانکہ ان اقدامات کی وجہ سے اس مسئلے پر بحث کا آغاز ہوا۔ درخواست گزار مختار احمد نے 2021 میں درخواست دائر کی تو رجسٹرار آفس نے نفی میں جواب دیا۔ درخواست گزار کو بتایا گیا کہ چونکہ معلومات تک رسائی کے حق ایکٹ (2017) کے تحت معلومات طلب کی گئی تھیں لہٰذا اس کا اطلاق عوامی اداروں پر ہوتا ہے لیکن عدالت عظمیٰ مذکورہ تعریف کے دائرے میں نہیں آتی۔ ڈپٹی رجسٹرار نے گزشتہ سال جنوری میں جواب میں لکھا کہ ’’اگرچہ ایکٹ میں فراہم کردہ پبلک باڈی کی تعریف بہت جامع ہے، لیکن پھر بھی مقننہ نے اپنی حکمت کے مطابق اس عدالت کو مذکورہ تعریف کے دائرے میں شامل نہیں کیا اور اسے ایکٹ کے دائرہ کار سے باہر رکھا ہے۔‘‘ اب، جب عدالت عظمیٰ نے اسی درخواست گزار کی ایک اور اپیل کا فیصلہ سناتے ہوئے رجسٹرار کے موقف کو برقرار رکھا ہے۔