پروفیسر خالد اقبال جیلانی
بیت المقدس کا تقدس اس کے نام سے ہی عیاں ہے اور اس کی تقدیم و تقدیس کے لئے یہ امر ہی کافی ہے کہ اسے مسلمانانِ عالم کے قبلۂ اول ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ خدا کے اس مقدس گھر کی جانب رخ کرکے اولین و سابقین اہل ایمان نے امام المرسلین ﷺکی پیشوائی میں نماز ادا کی، خدا وند قدوس نے اپنے محبوب ﷺ کو معراج پر لے جانے کے لئے روئے زمین پر اسی مقدس مقام کا انتخاب کیا۔ جب سے اس کی بنیاد پڑی ہے خاصانِ خدا بالخصوص انبیاء و مرسلین نے اس کی زیارت کو باعثِ افتخار جانا ہے۔
بیتِ المقدس بارگاہِ خداوندی کے ان اولین سجدہ گزاروں اور توحید پرستوں کا مرکزاول ہے جن کے سجدوں نے انسانیت کو ہزار سجدوں سے نجات دلادی، لیکن افسوس صد افسوس کہ جو بیت المقدس مدتِ مدید سےاہل ایمان کےلیےعظمت و اہمیت کا حامل ہے، جس نے پریشان فکروں کو مجتمع کر کے مسلمانوں کو مختلف الجہتی اور پرگندگی سے بچایا، جس نے فرزندانِ اسلام کی قوت بندگی کو قائم کیا، جس کی بنیاد اللہ کے ایک برگزیدہ پیغمبر نے رکھی ہو، وہی قبلۂ اول آج صہیونیت کے نرغے میں ہے اور بزبان حال امتِ محمدیہ ﷺ سے اپنی بازیا بی و آزادی کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ان کی زبوں حالی پر نوحہ کناں بھی ہے۔
طلوعِ اسلام کے بعد بیتِ المقدس مسلمانوں کا قبلۂ اول قرار پایا۔ جس کی طرف ہمارے ہادی ورہبر حضرت محمدﷺ اپنا رخ اقدس کر کے نماز پڑھا کرتے تھے۔ اس لئے تاریخی و مذہبی حیثیت سے بیت المقدس اسلام کے عظیم الشان تاریخی آثار و باقیات اور روایات کا اہم جز وہے، یہی وجہ ہے کہ امتِ مسلمہ کسی بھی وقت اور کسی بھی حال میں اس سے دستبردار نہیں ہو سکتی۔
بیت المقدس اور مسجد اقصٰی اسلام کا قبلۂ اول ہونے سے لے کر اس منزل تک جہاں رسول اللہ ﷺ نے معراج کے سفر میں تمام انبیاء کو نمازکی امامت فرمائی ،نیز قرآن کریم ، احادیث و روایات کی شہادت سے بھی مسجد اقصیٰ کی فضیلت و عظمت آشکارہے، قرآن کریم میں رسول اللہﷺ کے سفر معراج کی روداد بیان کرتے ہوئے سورۂ اسراء کی ابتدائی آیت میں اللہ نے ارشاد فرمایا ’’پاک ہے وہ ذات جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی، جس کے اردگر ہم نے برکت رکھی ہے۔
مسجد اقصیٰ کی اس قرآنی اہمیت و فضیلت کے ساتھ احادیث میں بھی مسجد اقصیٰ کی فضیلت و اہمیت کو اجاگر کیا گیاہے۔ روایات کے مطابق مسجد اقصیٰ زمین پر تعمیر ہونے والا اللہ کا دوسرا گھر ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا ’’زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’مکہ معظمہ کی مسجد ‘‘ (یعنی مسجد اُم القریٰ بابیت اللہ) پھر عرض کیا گیا کہ اس کے بعد کون سی مسجد؟
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسجد اقصیٰ اور ان دونوں کی تعمیر میں چالیس سال کا وقفہ تھا۔ مسجد اقصیٰ کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ یہاں نبی اکرمﷺ پر معراج کی رات وحی نازل ہوئی ۔(سنن ابوداؤد) مسجد اقصیٰ ان تین مساجد میں سے ایک ہے جس کی زیارت کے لئے سفر کو مقدس سفر قرار دیا گیا ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’تمہیں زیادہ ثواب حاصل ہونے کی امید کے ساتھ تین مساجد کے علاوہ کسی اور جگہ کی زیارت کے لئے سفر خاص نہیں کرنا چاہیے، اول بیت اللہ ، دوم میری مسجد ، مسجد نبوی اور تیسری مسجد اقصیٰ ۔(صحیح بخاری و ابوداؤد)
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو مسجد اقصیٰ سے حج یا عمرہ کا احرام باندھ کرحج یا عمرہ کرنے گیا اس کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کر دیئے جائیں گے یا جنت اس کے لئے واجب ہو جائے گی۔ (سنن ابو داؤد)
امت مسلمہ کے لئے مسجد اقصیٰ کی سب سے بڑی اور اہم فضیلت یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں کا قبلۂ اول ہونے کا شرف حاصل ہے۔ جب نبی کریم ﷺ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ﷺ صحابہ کرامؓکے ساتھ تقریباً سترہ مہینے تک مسجد اقصیٰ بیت المقدس کی جانب رخ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ اس کے بعد آپ کی دلی خواہش و آرزو پر اللہ تعالیٰ نے تحویل قبلہ کا حکم نازل فرما کر بیت اللہ یا خانہ کعبہ کو مسلمانوں کا قبلہ مقرر فرمادیا۔
بعض روایات کے مطابق جب رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میں نماز ادا فرماتے تو بیت اللہ کی اس سمت کی طرف رخ کرتے کہ جس سمت مسجد اقصیٰ تھی اور اس سے مقصد یہی تھاکہ بیت اللہ کے ساتھ ساتھ قبلہ اول مسجد اقصیٰ کی سمت بھی رخ رہے۔
تاریخی اعتبار سے اگر مسجد اقصیٰ کا جائزہ لیا جائے تو یہ مسجد فلسطین کے شہریروشلم (القدس) میں واقع ہے۔ مسجد اقصیٰ کی سب سے پہلی تعمیر حضرت آدم علیہ السلام نے کی ، جنگوں اور امتداد زمانہ سے یہ مسجد اپنا نشان کھو بیٹھی ، پھر اسے حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے اپنے صاحبزادے حضرت اسحاق علیہ السلام کے ساتھ تعمیر کیا، اور بیت المقدس کو اپنامسکن بنایا اولاد ابراہیم کے فلسطین سے ہجرت کے بعد یہ مسجد ایک بار پھر زمانے کی دست برد سے مٹ گئی۔ اس کے بعد اللہ نے اپنے جلیل القدر رسول حضرت داؤد علیہ السلام کو مسجد اقصیٰ تعمیر کرنے کا حکم دیا، آپ زیر تعمیر مسجد کے احاطے میں نماز ادا فرماتے، لیکن مسجد کی تعمیر مکمل ہونے سے پہلے ہی حضرت داؤد علیہ السلام وصال فرماگئے۔
آپ کے بعد آپ کے صاحبزادے حضرت سلیمان علیہ السلام نے بحکم و مشیت خداوندی مسجد اقصیٰ کی تعمیر کو مکمل کیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات کو حکم دیا کہ وہ مسجد اقصیٰ کی تعمیر میں ان کی مدد کریں۔ لہٰذا ہم آج جس مسجد اقصیٰ کو دیکھ رہے ہیں ،یہ در حقیقت جنات کی تعمیر کردہ ہے، قرآن کریم میں جن دو تاریخی مساجد کا نام وارد ہوا ہے، ان میں ایک بیت اللہ اور دسری مسجد اقصیٰ ہے۔
مسجد اقصیٰ کے بارے میں یہ حقیقت بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے نزدیک مسجد اقصیٰ صرف ایک مسجد ہی نہیں، بلکہ یہ امت محمدیہ کے لئے بنی اسرائیل کے جلیل القدر انبیائے کرام علیہم السلام کی ایک متبرک تاریخی یادگار ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اللہ کے آخری نبی محمد رسول اللہ ﷺ تک مسجد اقصیٰ بہت سے اہم ترین اسلامی واقعات کا محو ررہی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے امت مسلمہ کو مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کی ہدایت کی ہے کیونکہ یہ اللہ کی عظمت کی علامت ہے اور اسلام کی تین مقدس ترین مساجد میں سے ایک ہے۔
اس تقدیس و تکریم اور فضیلت و اہمیت کی رو سے امت مسلمہ ہی مسجد اقصیٰ کی تولیت و تحفظ کی ذمہ دار ہے اور امت کسی صورت میں اللہ و رسول ﷺ کے تفویض کردہ حق سے دستبردار نہیں ہو سکتی ، کیونکہ اس وقت اس زمین پر صرف امتِ مسلمہ ہی تمام انبیائے کرام کی وارث ہے۔ کسی اور مذہب یا قوم کا یہ حق ہے ہی نہیں کے وہ انبیائے کرام ؑکی وارث ہونے کا دعویٰ کرے ، اسی لئے امت مسلمہ کا نعرہ یہ ہے کہ ’’القدس لنا‘‘ مسجد اقصیٰ صرف اور صرف ہماری ہے اور ہم اس کی بازیابی ،آزادی اور تحفظ کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہادیں گے۔