اسلام آباد(رانا مسعود حسین/ایجنسیاں) عدالت عظمیٰ میں عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق مقدمہ کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے 11 فروری 2024 کی تاریخ تجویز کی۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کواس حوالے سے جمعرات ہی کے روز صدر مملکت کے ساتھ مشاورت کرنے کی ہدایت کی‘چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ انتخابات کی تاریخ کا جو اعلان ہوگا وہ پتھر پر لکیر ہوگا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جو تاریخ دی جائے گی اس پر عمل کرنا ہو گا‘صدر اپنے ہاتھ کھڑے کرکے کہہ رہے جاؤ عدالت سے رائے لے لو‘ صدر پھر خود رائے لینے آتے بھی نہیں‘ہمیں صرف الیکشن چاہئیں ‘کسی بحث میں نہیں پڑنا چاہتے‘ ہر ادارے کو اپنا کام خود کرنا ہے ‘ہم کسی کا کردارنہیں لیں گے۔
الیکشن کی حتمی تاریخ کا اعلان سپریم کورٹ سے ہوگا جبکہ جسٹس اطہر من اللّٰہ کا کہنا تھا کہ انتخابات میں تاخیر کیلئے پیپلزپارٹی ‘الیکشن کمیشن اور صدر مملکت سمیت سب ذمہ دار ہیں۔
عدالت نے حکم دیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے حکام صدر مملکت سے ملاقات کریں اور ملک بھر میں عام انتخابات کی تاریخ مقرر کی جائے ، اس ضمن میں اٹارنی جنرل ملاقات کا اہتمام کر یں گے اور صدر کو سپریم کورٹ کے 23 اکتوبر اور 2 نومبر کے احکامات فراہم کر یں گے اور اپنی معاونت فراہم کر یں گے۔
حکمنامہ میں کہا گیا کہ عدالت توقع کرتی ہے کہ ملک میں عام انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا معاملہ حل کرلیا جائے گا جس کے بعد سپریم کورٹ کو آج بروز جمعہ آگاہ کیا جائے گا، حکم نامہ پر ججوں نے کمرہ عدالت میں ہی دستخط کیے اور تصدیق کے بعد آرڈر کی مصدقہ نقول فریقین کو فراہم کر دی گئیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ صرف الیکشن چاہتی ہے کسی اور بحث میں پڑنا نہیں چاہتی، الیکشن کمیشن صدر کے پاس ضرور جائے اور دروازے پر دستک دے، فون اٹھائیں اور صدر کے ملٹری سیکرٹری کو ملا ئیں، صدر سمیت جو ملاقات میں موجود ہوگا ان کے دستخط لیے جائیں۔
دستاویز پر سب کے دستخط لیں تا کہ کل کوئی مکر نہ جائے، الیکشن کمیشن پر واضح کر دیتے ہیں کہ اس کے بعد الیکشن کی تاریخ میں توسیع کی اجازت نہیں ہوگی،جو تاریخ دی جائے گی اس پر عمل کروایا جائے گام، لیکشن کمیشن کل کچھ اور آکر نہ کہہ دے، الیکشن کی حتمی تاریخ کا اعلان سپریم کورٹ سے ہوگا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے واضح کیا ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوجانے پر تصور کیا جائے کہ اب یہ پتھر پر لکیر ہوگی،ہم تاریخ بدلنے نہیں دیں گے، ہم اسی تاریخ پر انتخابات کا انعقاد یقینی بنوائیں گے‘عدالت اپنے آرڈر پر عمل درآمد کروائیگی، جب تک ہمیں مجبور نہیں کریں گے ہم کسی کے کام میں مداخلت نہیں کریں گے، ادارے اپنا کام نہیں کریں گے تو بے یقینی پیدا ہوگی۔
سماعت کے دوران سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے صدر عابد ایس زبیری نے عام انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کے حوالے سے حال ہی میں الیکشن ایکٹ میں کی گئی ترمیم اور اس ضمن میں سپریم کورٹ کی تشریح کے بارے میں ایک فیصلے کا حوالہ دیا تو چیف جسٹس نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ یہ بینچ ٹوٹ جائے اور انتخابات میں مزید تاخیر ہو؟
اگر آپ تشریح کی جانب جائیں گے تو پھر لارجر بینچ بنے گا، ہمارے سامنے الیکشن کا معاملہ ہے اور لوگ جلدی الیکشن چاہتے ہیں‘ عدالتوں کے فیصلے آئین کو تبدیل نہیں کرسکتے ہیں، ہم سب آئین کے پابند ہیں، عدالتی فیصلوں کے نہیں ،فیصلے تو مارشل لا ء کو بھی جائز قرار دینے کے ہوئے ہیں۔
عابد ایس زبیری نے کہا کہ پارلیمنٹ نے تو بھی مارشل لاؤں کی توثیق کی ہے؟جس پر چیف جسٹس نے کہا پارلیمنٹ کے پاس متبادل کیا تھا، کیوں پارلیمنٹ کی بے قدری کررہے ہیں؟ فیصلوں کے حوالوں پر فیصلے صرف پاکستان میں ہوتے ہیں دنیا میں کہیں اور نہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن میں تاخیر ہورہی ہے تو پیپلز پارٹی سمیت سب اس کے ذمہ دار ہیں۔
پیپلز پارٹی کے وزیراعلیٰ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں موجود تھے وہاں مخالفت کیوں نہیں کی؟ فاضل جج نے کہا کہ عدالت ایک دن کی تا خیر بھی کیوں درگزر کر ے؟ چاہے کرنیو الا کوئی بھی ہو؟کیا آپ چا ہتے ہیں کہ عدالت آئین کی خلاف ورزی کو درگزر کر دے؟ عدالت کو نظریہ ضرورت کی جانب نہ لیکر جائیں۔
انہوں نے کہا کہ صدر نے نو اگست کو اسمبلی تحلیل کی تو اسوقت الیکشن کی تاریخ کیوں نہیں دی تھی، آرٹیکل 48 میں صدر کی تاریخ دینے کا اختیار بڑا واضح ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ صدر نے الیکشن کمیشن کو تاریخ کے معاملے میں سپریم کورٹ سے گائیڈ لائن لینے کا کہا ہے حالانکہ وہ خود اس حوالے سے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ کو ریفرنس بھجوا سکتے تھے۔
صدر عارف علوی نے انٹرویو میں کہا ہے کہ تحریک انصاف جس کی آپ عدالت میں نمائندگی کر رہے ہیں اس جماعت کا لیڈر صدر عارف علوی کا لیڈر ہے، تو اپنے لیڈر کو کہیں کہ صدر کو فون کرکے انہیں کہیں کہ وہ الیکشن کی تاریخ دیں، صدر نے الیکشن کی تاریخ نہیں دی تو کیا سپریم کورٹ صدر کے خلاف رٹ جاری کرے؟ عدالت صدر کو رٹ کیسے جاری کر سکتی ہے؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ انتخابات میں التواء کے لیے الیکشن کمیشن سمیت سب ذمہ دار ہیں، مقررہ مدت سے اوپر وقت گزرنے کے بعد ہر دن آئینی خلاف ورزی ہورہی ہے۔