• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوجوانو! مستقبل کی کمان تمہارے ہاتھوں میں ہے

کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کيا تو نے؟

وہ کيا گردوں تھا تُو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے ميراث پائی تھی

ثريا سے زميں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

نوجوانوں سے اقبال کا یہ خطاب جہاں ماضی میں نوجوانوں کے تابناک کردار کی عکاسی کرتا ہے، وہیں حال و مستقبل کے اندیشوں سے بھی بھرپور ہے۔ نوجوانوں کے کردار پر گفتگو دور حاضر کا سب سے اہم اور حساس موضوع ہے۔ لیکن بنیادی فکر کی کمی نے اس موضوع کو ایک خاص دائرے تک محدود کر دیا ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ آج اگر نوجوانوں کے کردار کی بات ہوتی بھی ہے تو وہ صرف بہتر روزگار، اور ذریعہ ءمعاش تک محدود رہتی ہے۔ ماضی میں نوجوانوں کا کردار آج کے دور کے نوجوانوں سے بہت مختلف تھا۔گزرے وقتوں میں تعمیر ملت کے ساتھ ساتھ تطہیرِ فکر بھی اُن کی تربیت کا حصہ تھی۔

یہی وجہ تھی کہ معاشرے امن و امان اور سلامتی کا گہوارہ تھے۔ اُنہیں زمانے کے بہاؤ کے ساتھ بہنے کا شوق نہیں تھا، وہ اپنی اساسی تعلیمات، قوم کے لیے بہتر فیصلوں اور مفادات کی بنا پر زمانے کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ جب دنیا تیزی سے یونانی فلسفے کی جانب بہتی چلی جا رہی تھی تب چند نوجوان اٹھے اور یونانی فلسفے کے مقابل اپنی بنیاد پر قائم رہتے ہوئے اسلامی فلسفے اور علم الکلام کی بنیاد ڈالی۔ 

جب علم و ہنر نے دنیا میں پنپنا شروع کیا تو مسلم نوجوان اپنی قوموں کی ترقی کے لیے سرگرداں ہو گئے، تاریخ شاہد ہے کہ زمانے سے ٹکرا جانے کی اسی طلب نے ابن الہیثم، جابر بن حیان، فارابی، جاحظ، الخوارزمی، کندی، ابن فرناس، ابوبکر رازی، البیرونی، ابن سینا اور ان جیسے ہزاروں اہل علم پیدا کیے، جنہوں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اپنی ایجادات اور تحقیقات سے اپنی قوموں کے سر فخر سے بلند کر دیے۔ 

جب باطل سے ٹکرانے کی نوبت آئی تو اسامہ بن زید، محمد بن قاسم، طارق بن زیاد اور درجنوں نوجوان سپہ سالاروں کے نام سنہرے حروف سے اوراقِ تاریخ میں درج ہوئے۔ اگر ماضی قریب کا جائزہ لیں تو پاک سرزمین کے قد کو بڑھانے اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں ایسے نوجوانوں کا کردار شامل ہے جو اپنے مقاصد سے واقفیت اور فکری توازن میں اعتدال سے سرشار تھے۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، ڈاکٹر عبد القدیر خان، راشد منہاس، میجر راجہ عزیز بھٹی، اور ارفع کریم جیسے چند نام ہی مثال دینے کے لیے کافی ہیں۔

2000ء کے بعد تیزی سے بدلتی دنیا نے جہاں عالمی سطح پر اقتصادی مسائل پیدا کیے وہیں ٹیکنالوجی کی جدید ترین شکلوں نے مقاصد کی تبدیلی، تشدد، ہدف سے بے توجہی اور وقت کے ضیاع کو عام کیا، یہی وجہ ہے کہ آج کا نوجوان اپنے مقاصد، اہداف، درست سمت سے مکمل ناآشنا ہے۔ تیزی سے بگڑتے معاشی حالات نے نوجوانوں کو اجتماعیت اور عالمگیریت کی ڈور سے کاٹ کر انفرادیت کی کرچیوں میں بکھیر دیا ہے۔ 

کامیابی کا معیار بہتر معاش،پُر تعیش طرزِ زندگی بن چکے ہیں۔ نوجوانوں کو ماضی سے توڑا جا رہا ہے، غیر محسوس انداز میں یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ تمھارے تابناک ماضی کی شخصیات کا تذکرہ سوائے کار عبث کے اور کچھ نہیں، ترقی کی معراج تبدیل ہوتی دنیا میں بہتر مستقبل کا انحصار مال و دولت اور جاہ و منصب پر ہے، انفرادی سطح پر سوچنے کی دعوت نے نوجوان کو اپنوں کے احساس سے کاٹ کر رکھ دیا ہے، آج ہم گلوبل ولیج میں سانس لیتےہوئے بھی قرنطینہ میں قید میں، تکثیریت، وسعت، عالمگیریت اور مشترکہ اقدار و مفادات کو روندا جا چکا ہے۔ ماضی کی بہ نسبت ہمارا مقابلہ جدید ٹیکنالوجی سے ہے، پہلے سے کہیں زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے۔

نوجوانوں کا رشتہ ماضی کے کرداروں سے جوڑنا ہوگا لیکن ساتھ ساتھ ہمیں تیزی سے تغیر پذیر دنیا کے علوم و فنون میں مہارت اور ترقی بھی ناگزیر ہے، ماضی اور حال کے حسین امتزاج سےنسلِ نوکو اپنی بنیادوں پر ہی بہتر مستقبل فراہم کیا جا سکتا ہے۔ 

ملک خداداد پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے ہمیں اپنے درست اہداف کا تعین کرنا ہوگا۔ آج کے نوجوان کو اپنے بہتر مستقبل کے لیے اپنی قدار کا انتخاب کرنا ہوگا۔ ماضی کے کارنامے صرف سننے اور سنانے کے لیے نہیں ہوتے، بلکہ ان کا مقصد سابقہ جذبے، احساس اور صلاحیتوں کو نسل در نسل منتقل کرنا ہوتا ہے۔ 

ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے حال میں اپنی تعمیر و تطہیر کے ذریعے مستقبل کی بہتر منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت ملکی حالات اور معیشت بہترین معاشرے کے معیار پر پورا نہیں اترتے، اس لیےاپنی روش کو یکسر تبدیل کرنا ہوگا، بدلتی دنیا پر گہری نظر رکھنی ہوگی۔ 

اغیار کا آلہ کار بننے کے بجائےاپنی اقدار و روایات کو زندہ رکھنا ہوگا۔نوجوانو!مستقبل کی کمان تمھارے ہاتھ میں ہے، سرمایہ بھی تم ہو، جس سے منفعت کا حصول ہی کامیابی ہے۔ راہوں کا انتخاب کرنے میں اپنے اسلاف کی روش سے ہٹنا عقل مندی نہیں، اجتماعیت کے بجائے انفرادیت کمال نہیں۔