کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما علی محمد خان نے کہا ہے کہ پاکستان کی عدلیہ آج تک ذوالفقار علی بھٹو کے کیس کو جسٹیفائی نہیں کرسکی، جس طرح چیئرمین پی ٹی آئی کا جیل میں ٹرائل ہورہا ہے وہ ایک سوالیہ نشان ہے، عمران خان سابق وزیراعظم ہیں ان کا درکار قانونی طریقہ کار اپناتے ہوئے اوپن ٹرائل کیا جائے، انصاف نہ صرف ہو بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہئے، عمران خان کا جیل ٹرائل اسی طرح خاموشی سے ہورہا ہے جیسے صدام حسین کا ہوا تھا۔سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ اس وقت پیپلز پارٹی اور جے یو آئی سمیت سب لاڈلا بننے کی کوشش کررہے ہیں، نواز شریف نے بلوچستان میں جو کچھ کیا وہ پاکستان کے ساتھ اچھا نہیں کیا،پیپلز پارٹی کیخلاف سندھ میں بہت بڑا گرینڈ الائنس بن رہا ہے،میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگلا ہفتہ ملکی سیاست اور دو سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کیلئے بہت اہم ہے، سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ ملک کے دو سیاسی حریفوں عمران خان اور نواز شریف کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کریں گی۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ اگلا الیکشن پرامن طریقے سے ہوجائے، 2024ء کا الیکشن 2018ء کے الیکشن کا تسلسل ہوگا، 2018ء میں نواز شریف نااہل اور جیل میں تھے، 2024ء میں یہی کچھ عمران خان کے ساتھ ہوگا، صرف ایک شخص کیلئے نہیں جمہوریت، آئین، میڈیا اور تمام سیاسی جماعتوں کیلئے مشکل وقت نظر آرہا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز ایک دوسرے سے اتفاق نہیں کررہے، سپریم کورٹ میں بھی ممکن ہے کچھ ایسی ہی صورتحال ہو، ججوں کا ایک دوسرے کے آمنے سامنے آنا مثبت ہونے کے ساتھ تشویشناک بھی ہے۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ اگلی پاکستان سپر لیگ فروری میں ہونی ہے، پی سی بی کو لگتا ہے فروری میں پاکستان کے حالات خراب ہوجائیں گے اس لیے وہ پی ایس ایل متحدہ عرب امارات میں لے جانا چاہتا ہے، اب حالات خراب ہونے کی وجہ سے فروری میں پی ایس ایل نہیں ہوسکتی تو الیکشن کیسے ہوں گے، ذکاء اشرف سے پوچھا جائے انہیں کس نے کہا ہے کہ فروری میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوگی۔حامد میر نے کہا کہ نواز شریف کیخلاف عدالتی فیصلہ ناانصافی پر مبنی تھا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ نواز شریف 2018ء کے دہرائے جانے والے کھیل کا حصہ بن جائیں، اس وقت پیپلز پارٹی اور جے یو آئی سمیت سب لاڈلا بننے کی کوشش کررہے ہیں، نواز شریف نے بلوچستان میں جو کچھ کیا وہ پاکستان کے ساتھ اچھا نہیں کیا، بلوچستان میں جو لوگ ن لیگ میں شامل ہوئے وہ پہلے بھی ن لیگ میں تھے اور چھوڑ کر بھاگ گئے تھے، ان لوگوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے جن کے پرائیویٹ ٹارچر سیل سے لاشیں برآمد ہوئی تھیں، ان میں ایسے بھی لوگ ہیں جو نواز شریف کیخلاف غداری کے فتوے لگاتے رہے ہیں۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ سمجھ نہیں آتا نواز شریف کی کیا مجبوری ہے کہ ان بدنام زمانہ لوگوں کو اپنے گلے لگالیا ہے، نواز شریف اتنے سمجھوتے کر کے وزیراعظم بنیں گے تو یہ تجربہ 2018ء کے تجربے سے بھی برے طریقے سے ناکام ہوسکتا ہے، نواز شریف کو سادہ اکثریت دینی ہوتی تو استحکام پاکستان پارٹی یا پی ٹی آئی پیٹریاٹ نہیں بنائی جاتی، نواز شریف سوچیں باپ پارٹی کے دو تین بڑے لیڈرز چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، خالد مگسی اور قدوس بزنجو وغیرہ ن لیگ میں شامل کیوں نہیں ہورہے، بلوچستان میں لوگوں کو بزور طاقت ن لیگ میں شامل کروایا گیا ہے، ان میں سے ایک شخص نے مجھے میسجز دکھائے جس میں تین ماہ پہلے اسے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کیلئے کہا گیا، وہ پیپلز پارٹی میں چلا گیا تو اسے کہا گیا مسلم لیگ ن میں چلے جاؤ۔ حامد میر نے کہا کہ بلاول بھٹو بتائیں جس ن لیگ کو وہ مہنگائی لیگ قرار دے رہے ہیں اسے پاکستان پر کس نے مسلط کیا، پچھلی پارلیمنٹ کے تیس چالیس ایم این ایز کو پانچ چھ دن تک سندھ ہاؤس میں کس نے رکھا تھا، شرجیل میمن اور قادر پٹیل سندھ ہاؤس میں کس کا پہرا دے رہے تھے، پیپلز پارٹی کیخلاف سندھ میں بہت بڑا گرینڈ الائنس بن رہا ہے، مولانا فضل الرحمٰن کے ن لیگ سے فاصلے پیدا ہونے کی وجہ سے گرینڈ الائنس ابھی تک نہیں بنا ہے، خیبرپختوخوا میں کچھ الیکٹ ایبلز کو جے یو آئی ف میں جانے سے روک کر ن لیگ میں شامل ہونے کیلئے کہا گیا، ن لیگ کو سندھ اور خیبرپختونخوا میں جے یو آئی کی ضرورت ہے۔