اسلام آباد (نمائندہ جنگ)اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی انٹراکورٹ اپیل کو منظور کرتے ہوئے جیل ٹرائل کالعدم اور 29 اگست کا نوٹیفکیشن غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جس انداز میں جیل ٹرائل کیا گیا اسے اوپن ٹرائل نہیں کہا جا سکتا۔ عدالت نے جیل ٹرائل کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیل کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے کہا کہ کابینہ کی منظوری کے بعد 15 نومبر کو وزارت قانون سے جاری کئے گئے نوٹیفیکیشن کیلئے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 352 پر عملدرآمد نہیں کیا گیا، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیئے ہوئے کہاکہ جیل ٹرائل کیلئے طریقہ کار موجود ہے، جیل ٹرائل کیلئے پہلا قدم جج کا مائنڈ ہے کہ وہ جیل ٹرائل کا فیصلہ کرے ، وفاقی حکومت کابینہ سے منظوری لینا ضروری ہے ، جج کو جیل ٹرائل سے متعلق جوڈیشل آرڈر پاس کرنا چاہئے ، اسکے بعد چیف کمشنر کی درخواست پر وفاقی حکومت کی منظوری کا مرحلہ آتا ہے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا ٹرائل جیل میں ہوسکتا ہے لیکن قانون میں دیئے گئے طریقہ کار کے مطابق۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل ڈویژن بنچ نے جیل ٹرائل اور سائفر کیس میں خصوصی عدالت کے جج کی تعیناتی کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیلوں کی سماعت کے بعد مختصر تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔ منگل کو سماعت کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ و دیگر جبکہ وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل منصور اعوان اور ایف آئی اے پراسیکوشن ٹیم کے اراکین عدالت میں پیش ہوئے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ جیل ٹرائل کیلئے طریقہ کار موجود ہے ، جیل ٹرائل کیلئے پہلا قدم جج کا مائنڈ ہے کہ وہ جیل ٹرائل کا فیصلہ کرے ، جج کو جیل ٹرائل کیلئے وجوہات پر مبنی واضح آرڈر پاس کرنا چاہئے۔ عدالت نے استفسار کیاکہ آرڈر سے آپ کی کیا مراد ہے؟ سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ ٹرائل کورٹ کے جج کا خط فیصلہ یا حکم نامہ نہیں ہے ، جج فیصلے کے ذریعے اپنا مائنڈ استعمال کرتا ہے، وفاقی حکومت کابینہ سے منظوری لے تو اسکے بعد ہائیکورٹ کو آگاہ کرنا ضروری ہے ، جج کو جیل ٹرائل سے متعلق جوڈیشل آرڈر پاس کرنا چاہئے ، کابینہ کے فیصلے کا ماضی سے اطلاق نہیں ہوتا، جیل ٹرائل کیلئے سب سے پہلے ٹرائل جج نے فیصلہ کرنا اور حکم جاری کرنا ہوتا ہے ، ٹرائل کورٹ کے جج کے خط کو فیصلہ یا حکم نامہ نہیں کہہ سکتے۔ سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ نے 8 نومبر کا خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات ذوالقرنین کا خط پڑھا اور کہاکہ جیل ٹرائل کیلئے جوڈیشل آرڈر ضروری ہے ، جیل ٹرائل کا جوڈیشل آرڈر ہمارا موقف سننے کا حق دیتا ہے ، 16 اگست کو جوڈیشل ریمانڈ کی کارروائی اوپن کورٹ میں ہوئی ، مان بھی لیا جائے کہ وفاقی کابینہ کی منظوری ہو گئی تو اس سے پہلے کی کارروائی غیرقانونی ہے ، 16 اگست کی سماعت کے بعد یہ ٹرائل جیل میں منتقل کیا گیا ، میرے خیال میں جیل ٹرائل کے معاملے پر پہلی درخواست پراسکیوشن کی طرف سے آتی ہے ، پراسکیوشن کی درخواست پر جج نے اپنا مائنڈ اپلائی کرنا ہوتا ہے ، پراسکیوشن کی درخواست پر باقاعدہ فیصلہ جاری ہو گا تو ملزم کو بھی اس کا حق ملے گا ، 8 نومبر کے خط کو دیکھتے ہوئے پوزیشن مزید واضح ہو جاتی ہے ، جج نے خط میں کہا کیس کا جیل ٹرائل جاری ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ کابینہ کی منظوری کا خط اس وقت لکھا گیا جب انٹرا کورٹ اپیل زیر سماعت تھی۔ سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ اپیل پر سماعت بھی چل رہی تھی ، 12 نومبر کو کابینہ نے جیل ٹرائل کی منظوری دی ، ہمارے اس معاملے پر دلائل کے بعد جج کو احساس ہوا کہ یہ طریقہ ہونا چاہئے تھا ، 12 نومبر کو کابینہ ڈویژن نے سمری تیار کی ، 13 نومبر کو جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ، جج نے لیٹر میں لکھا کہ مستقبل کی پیچیدگیوں سے بچنے کیلئے جیل ٹرائل کی منظوری دی جائے۔