ڈاکٹر اعظم رضا
میچ کھیلنے کے خواہش مند لڑکے نے کھلاڑیوں کی سلیکشن کے دوران اپنے کوچ کی طرف پر امید نگاہوں سے دیکھا ۔ کوچ سلیکشن کرتے ہوئے اس لڑکے کے قریب آیا اور چپ چاپ اسے دیکھتے ہوئے آگے نکل گیا۔ لڑکے نے محسوس کیا کہاس دفعہ پھر مجھے چھوڑ دیا گیا ہے تو اس نے کوچ کے قریب جا کر ہاتھ باندھ کر درخواست کی اور روتے ہوئے کہا پلیز سر ، پلیز سر مجھے ایک موقع دیں ۔ کوچ نے اسے کہا تم سے اچھے لڑکے بھی ہیں میں کیسے تمھیں یہ چانس دے دوں، جبکہ میچ بھی بہت اہم ہے ہمارے کالج کی عزت کا مسئلہ ہے۔
کوچ نے روتے ہوئے لڑکے کو دیکھا تو کہا،’’ ٹھیک ہے دوسرے ہاف میں تم گراونڈ میں جاؤ گے ۔* میچ کے دن وہ وقت پر پہنچ گیا ۔ کوچ کو پر امید نگاہوں سے دیکھا کہ شاید مزید گنجائش نکلے اور مجھے ابتداء سے ہی ٹیم کا حصہ بنا دے ،مگر ایسا نا ہوا۔ بہرحال میچ شروع ہوا تو دوسری ٹیم مسلسل گول پر گول کیے جا رہی تھی، پہلے ہاف میں اس ٹیم کا ایک بھی گول نہ ہوا۔
دوسرا ہاف شروع ہوا تو اس لڑکے کو کوچ نے مایوسی سے کہا ٹھیک ہے تم بھی جاؤ اپنی قسمت آزما لو ۔ لڑکے نے پہلے ہی چند منٹوں میں ایک شاندار گول کر دیا ۔ لیکن ایک چار کا یہ مقابلہ ابھی کسی کی نظر میں خاص اہمیت نہیں رکھتا تھا خیر لڑکے نے اگلے چند منٹوں میں تین گول اور کر کے میچ برابر کر دیا ۔ یہ وہی لڑکا تھا جسے کھیلنے نہیں دیا جا رہا تھا۔
اب لوگوں کی دلچسپی بڑھی ہر طرف اس کے نام کے نعرے لگنے لگے ۔ سب دیکھ رہے تھے کہ کیسے میچ دھواں دار شکل اختیار کر رہا ہے ۔ وقت ختم ہونے کو تھاکہ اسی لڑکے نے ایک آخری گول کر کے میچ اپنے نام کر لیا ۔ سب حیران تھے ۔ لڑکا میچ جیتےہی گراونڈ سے باہر کی طرف بھاگا اور ایک بوڑھے شخص کے گلے لگ کر رونے لگا ساتھ ساتھ کہتا جاتا بابا آپ نے ٹھیک کہا تھا ۔ ٹرافی اور انعامات لے کر جب ٹیم کوچ کے پاس گئی تو اس نے کہا ،’’مجھے نہیں پتہ کہ آج تم کیسے سب سے زیادہ اور حیران کن اچھا کھیلے۔
اس سے پہلے کبھی تم پریکٹس میں بھی اس طرح شاندار نا کھیلے تھے۔لڑکے نے کہا ،میں گھر سے جب بھی میچ کھیلنے آتا تو میرے گھر میں سب غصہ ہوتے یا مذاق اڑاتے ۔ جس دن سلیکشن تھی میں نے بابا کو بتایا تھا کہ میری سلیکشن ہے، مگر مشکل ہے کہ میں سلیکٹ ہوجاؤں کیونکہ آج تک میں ویسا نہیں کھیل پایا جیسا میرے دوست کھیلتے ہیں تو انہوں نے کہا،’’ بیٹا ! تم ان سب سے اچھا کھیل سکتے ہو اور آج میرے بابا پہلی بار میرا میچ دیکھنے آئے ہیں،اسی لیے یہ سب ممکن ہوا ، یہ کہانی ہمارے ہر محلے، ہر گھر کی ہے ہر اس شخص کی ہے جو کچھ بڑا کام کرنے کے لیے محنت کرتا ہے ،مگر اسے اس کے گھر سے حوصلہ نہیں دیا جاتا۔
ہمارے معاشرے کا المیہ یہی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں، مگر جانے انجانے میں ان کے دل توڑ دیتے ہیں۔ ہمارے بہت سے مزاحیہ جملے ان کے حوصلوں کو کم کر رہے ہوتے ہیں ،ان کا اپنے آپ سے، اپنی صلاحیتوں سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ آپ مشاہدہ کریں کہ بزنس مین کی اولاد نوکری نہیں کرتی بلکہ وہ بھی بزنس کرتی ہے اور بہت کم عمر ی میں وہ اپنے قدموں پر بھی کھڑے ہو جاتے ہیں، مگر اس کے برعکس غریب اور متوسط طبقہ اپنی اولاد کو طعنے دیتا رہتا ہے، ہر عمل میں نفع نقصان کے اندازے لگاتا ہے۔
وہ ہر تعلق کا حساب بھی اس طرح کرتا ہے کہ تمھیں اس کے ساتھ رہنے کا کیا فائدہ ہے ۔ تم یہ کام کیوں کر رہے ہو ۔یا دوسروں کے بچوں کی اتنی تعریف کریں گے کہ اپنا بچہ احساس کم تری میں چلا جائے گا یا ہر ایسے با صلاحیت انسان سے چڑنے لگے گا ۔آپ ضرور اپنے اولاد پر نظر رکھیں، مگر آپ کے سوال کا انداز ان کے مثبت رویے کو یا تو اور مثبت بنا دے گا یا منفی کر دے گا ۔وہ معاشرے کے بہترین فرد بننے کی بجائے مجرم بن جاتے ہیں۔
یاد رکھیں سب کچھ حال کے لیے نہیں ہوتا مستقبل کے لیے بھی ہوتا ہے۔ اپنے اولاد کو حوصلہ دیں۔ انہیں احساس دلائیں کہ آپ ہر لمحہ ان کے ساتھ ہیں ۔ جس طرح بچپن میں آپ ان کے ننھے قدم اٹھنے پر خوش ہوتے تھے، اب بھی ایسے ہی خوش ہوں ان کو توجہ دیں۔
جب ہر کام کے بعد آپ ان سے حساب مانگیں گے۔ ان کو احتساب کے لیے کچہری لگا لیں گے، سب بہن بھائیوں کے سامنے بے عزت کریں گے تو ان کی ترقی ادھوری رہ جائے گی۔ وہ احساس کم تری کا شکار ہو جائیں گے۔ یقینا ماں باپ بچوں کی ترقی کے دشمن نہیں ہوتے، مگر بہت سے کام وہ جانے انجانے میں ایسے کر رہے ہوتے ہیں جن سے ان کی اولاد اندر ہی اندر انہیں اپنا دشمن سمجھنے لگتی ہے، حتی کہ وہ ان سے باتیں چھپانے لگتی ہے۔ وہ نوجوان خوب پھلتے پھولتے ہیں بلکہ تھوڑی محنت سے زیادہ ترقی کرتے ہیں جن کے ساتھ یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کے ماں باپ ان کے ساتھ ہیں۔