• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1940 اور 1950کی دہائیوں کے بعد سے اب تک رونما ہونےوالی تبدیلیوں پراچٹتی سی نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ آج اور اس وقت کے لوگوں سوچ اور زندگی گزارنے کے ڈھنگ میں کافی فرق ہے۔ موجودہ زمانے میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے بہت سی آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ آج کے دور میں وہ سہولتیں میسر ہیں جو ہمارے والدین یا ان کے والدین کو میسر نہیں تھیں۔ یہ بات بھی واضع ہے کہ جب وقت بدلتا ہے تو مسائل کی نوعیت بھی بدل جاتی ہے۔ 

موجودہ نسل کو اپنے اجداد کے مقابلے میں قدرے مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ آج کے دور میں مواقع کم اورامیدوار زیادہ ہیں۔ یہ صورت حال بہت زیادہ پریشان کن ہے لیکن ان نوجوانوں کے لئے نہیں جو حالات پر نظر اور خود کو تبدیلیوں کے لئے تیار رکھتے ہیں۔ کیریئر کے حوالے سے پلاننگ کرتےہیں۔ خوب سے خو ب تر کی تلاش ان کا محبوب ترین عمل ہوتا ہے۔ 

یہاں بات ان نوجوانوںکی کر رہے ہیں جو مشکلات کے رونا روتے رہتے ہیں۔ سب سے پہلے تو آپ یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ مقابلہ بہت سخت ہے ۔ قدم قدم پر مقابلے کا رجحان ہے دنیا کی آبادی جتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے، اتنی ہی تیزی سے مسابقت میں شدت آتی جا رہی ہے۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ زندگی کی مشکلات کا رونا روتے رہنا چاہتے ہیں یا مشکل صورت حال کو چیلنج سمجھ کر قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔

یاد رکھیں کوئی بھی معاملہ ہمارے سوچنے کے اندازکے بناپر مسئلے کے سانچے میں ڈھلتا ہے۔ کسی بھی چیلنج سے خوف زدہ ہونے کے بجائے اگر آپ اس سے نبردآزما ہوں گے تو بہتری کی صورت نکلے گی۔ تحقیق و جستجو کی راہ ہموار ہو گی اور زندگی کے بارے میں آپ کا نظریہ بدلے گا۔ بہت سے نوجوان اپنے اہداف پانے میں ناکامی کے بعد منفی سوچ کے دریا میں غرق ہو جاتے ہیں۔ ان کے سوچنے کے صلاحیت اس خیال کے گرد گھومنے لگتی ہے کہ تقدیر ان کے ساتھ نہیں ۔ زندگی ان کے لئے بے معنی ہے۔ 

ایسا سوچنا بے محل ہے۔ ذرا سوچیں کہ کیا آپ سے کمتر معاشی حیثیت کے حامل اور زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم افراد کی تعداد کروڑوں میں نہیں؟ آپ کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ آپ کے سامنے امکانات کی دنیا روشن ہے جو سحر ہونے کے لیے بے تاب ہے۔ آپ جدوجہد کریں مقابلہ کریں تو یقینی طور پر امکانات کے در آپ پر کھلتے چلے جائیں گے۔ بہتر زندگی کے لئے آپ کو اپنی سوچ ، ترجیحات اور رجحانات میں تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ اپنے لئے واضح اہداف مقرر کرنےہوں گے۔ 

بہت سے نوجوان ایسے بھی ہیں جن کو ابتدا ہی سے بہت سی سہولتیں میسر ہوتی ہیں،انہیں مشکلات کا اندازہ کبھی نہیں ہو پاتا لیکن ذرا سی بحرانی کیفیت ان کی زندگی میں ہل حل مچا دیتی ہے۔ جو نوجوان شدید مشکلات سے گزر کر اپنا راستہ بناتے ہیں، ان کی صلاحتیں خود بخودنکھرنے لگتی ہیں۔ جو نوجوان اپنی ذات پر بھروسہ نہیں رکھتے وہ ہمیشہ تذبذب میں مبتلا رہتے ہیں۔ یاد رکھیں اپنے آپ پر یقین سب سے بڑی دولت ہے۔

ماحول کی نوعیت کے مطابق برین واشنگ، گرومنگ اورکنڈیشننگ کرنی پڑتی ہے۔ برے حالات کی کوکھ سے بھی خوش گوار حالات جنم لے سکتے ہیں۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے کہ جب نوجوان اپنی ذات پر یقین رکھیں اور مشکلات کی طرف دیکھنے سے گریز کرنے کے بجائے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھیں۔

یاد رکھیں تخم ریزی کیے بغیر فصل کاٹنا ممکن نہیں۔ اگر مشکلات نہ ہو تو انسان میں تحقیق و جستجو کی لگن ہی پیدا نہ ہو ۔ اکثر حالت ساز گار نہیں ہوتے انہیں بنایا جاتا ہے۔ عزم مصم زندگی کے سمندر میں سفر کرنے والوں کے لئےروشنی کے منیار جیسا ہے۔ دنیا کو اس بات سے کچھ خاص غرض نہیں کہ کل آپ کیا تھے۔ لوگ آپ کی قابلیت کا اندازہ اپنے مفاد کو ذہین نیشن رکھتے ہوئے لگاتے ہیں۔ 

یعنی کہ آج آپ کیا ہیں اور کس حد تک مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ اسی لئے گزرے ہوئے کل پرکفِ افسوس کرنے کے بجائے، آج اوراس سےکہیں بڑھ کر آنے والے کل کی تیاری کرنی چاہیے۔ اگر زندگی کے دریا کو رخ تبدیل کرنا ممکن نہ ہوتا تو آج ہمیں یہ نیرنگی بھی دکھائی نہ دے رہی ہوتی کوئی بہت امیر ہوتا نہ کوئی بہت غریب۔ دنیا کا نظام اسی طرح چلتا ہے۔ جو نوجوان زندگی کی حقائق کا ساتھ دیتے ہیں وہ آگے نکل جاتے ہیں۔