• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لوگ اکثر پوچھتے ہیں کہ آپ نے اپنی زندگی کو اِس قدر خوبصورتی سے کیسے برباد کیا تو میں انہیں جواب دیتا ہوں ’کالج کے زمانے میں فلمیں دیکھ کر۔‘دراصل میرا کالج کا زمانہ نہایت بور تھا، کہنے کوتو میں گورنمنٹ کالج ، لاہور میں زیر تعلیم تھا (جس کا نام مضحکہ خیز طور پرتبدیل کرکے اب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کردیا گیا ہے)مگر اصل میں لکشمی چوک ، لاہور میں پایا جاتا تھا۔حقیقت اور مجاز کا فرق اسی کو کہتے ہیں۔نوجوان نسل نے چونکہ لکشمی چوک کی پرانی شکل نہیں دیکھی تو اُنکی آسانی کے لیے عرض کردوں کہ لکشمی چوک، ایبٹ روڈ اور رائل پارک کا علاقہ فلموں کی وجہ سے مشہور تھا۔یہاں قطار اندر قطار سینماگھر ہوا کرتے تھے جن میں اردو اور پنجابی فلمیں لگا کرتی تھیں، انگریزی فلمیں زیادہ تر پلازہ سینما اور ریگل سینما میں لگتی تھیں اور بہت زیادہ انگریزی فلموں کیلئے مون لائٹ سینما مشہور تھا ۔بہت زیادہ انگریزی کا مطلب یہ ہے کہ اِن فلموں کی انگریزی سمجھ نہیں آتی تھی لہٰذا اِن کی آواز ہی بند کردی جاتی تھی۔جہاں بیڈن روڈ ختم ہوکر لکشمی چوک کی طرف نکلتی تھی، مون لائٹ سینما وہاں واقع تھا جبکہ پلازہ سینما کوئنز روڈ پر اور ریگل سینما اُس کے عقب میں یعنی ریگل چوک پر ہوا کرتا تھا۔اردو اور پنجابی فلموں کیلئے عموماً شبستان، کیپیٹل، اوڈین، گلستان، میٹروپول، پرنس، محفل اور رتن سینمامشہور تھے۔رائل پارک کا علاقہ بھی قریب ہی تھا مگر یہ فلموں کی ڈسٹریبیوشن کا مرکز تھا جبکہ فلم سٹوڈیوز ملتان روڈ پر واقع تھے جن میں شاہ نور ، باری اور ایور نیو سٹوڈیو زیادہ مشہور تھے۔

اِس سے پہلےکہ آپ اِس تمہید سے بور ہوجائیں ، میں یہ عرض کردوں کہ جس وقت کی میں بات کر رہا ہوں وہ نوّے کی دہائی ہے جب سینما میں فلم دیکھنے کا لُطف ہی کچھ اور تھا۔سینما تو آج بھی ہیں جہاں جا کر آپ فلم دیکھ سکتے ہیں مگر وہ بات کہاں مولوی مدّن کی سی!آج کل کے سینما تو ماچس کی ڈبیا ہیں جن میں بس دو چار سو لوگ ہی فلم دیکھ سکتے ہیں، اور پھر اِن سینماؤں میں نہ ٹکٹ حاصل کرنے کا ’تھرل‘ ہے اور نہ ہی ’ہاف ٹیم‘ میں کوئی کینٹین والا بوتلیں کھڑکھڑاتا ہوا آتا ہے۔اگر کسی فلم میں کوئی گانا ہِٹ ہوجائے تو فقط ایک ہی مرتبہ چلتا ہے ، آپ پروجیکٹر کے سامنے کھڑے ہو کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ ’دوبارہ چلا اوئے‘۔اور پھر یہ نام نہاد سنی پلیکس ایک وقت میں چار چار فلمیں چلا رہے ہوتے ہیں، وہ گولڈن جوبلی ہفتہ اور پلاٹینم جوبلی ہفتہ والی بات ہی نہیں رہی ۔یہاں رُک کر مجھے ایک مرتبہ پھر اپنے نوجوانوں کو بتانا پڑیگا کہ اِن فلمی اصطلاحات اور روایات کا کیا مطلب ہے ۔سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ لکشمی چوک کےسینما گھر کافی بڑے تھے جن میں ایک وقت میں عموماً چھ سات سو لوگ فلم دیکھ سکتے تھے،سب سے مہنگی ٹکٹ باکس کی ہوا کرتی تھی ، اُسکےبعد گیلری ، پھر سٹال اور کسی سینما ہال میں لوئر سٹال بھی ہوتا تھا جس کی ٹکٹ سب سے سستی ہوتی تھی کیونکہ وہاں بیٹھ کر فلم دیکھنے کیلئے آپ کو گردن اوپراٹھا کر رکھنی پڑتی تھی۔سب سے مشکل کام کسی فلم کی ریلیز کے پہلے دن پہلے شو کی ٹکٹ حاصل کرناہوتا تھا، اُس دن ڈسٹری بیوٹر نہایت چالاکی سے چند ٹکٹیں ہی فروخت کیلئے کھڑکی پر رکھتے تھے اور باقی اپنے دوستوں میں تقسیم کرتے تھے تاکہ وہ آئیں اور فلم کی تعریف کرکے اسے ہِٹ کروائیں۔یہ تکنیک کبھی کارگر ثابت نہیں ہوئی کیونکہ جس فلم نے ناکام ہونا ہوتا تھا وہ اِن تمام ہتھکنڈوں کے باوجود ناکام ہوجاتی تھی۔پہلے شو کی ٹکٹ لینے میں اِس خاکسار کو خاص ملکہ حاصل تھا،میں چھلانگ لگا کر لوگوں کے اوپر سے تیرتا ہوا کھڑکی تک جاتا اور تقریباً اپنا ہاتھ تڑوا کر ٹکٹ لیتا۔اُس زمانے میں ایک سینما میں ایک ہی فلم لگتی تھی اور وہ فلم جتنے ہفتے لگتی اُتنی ہی کامیاب سمجھی جاتی ، اسی مناسبت سے اُسکا سلور جوبلی ، گولڈن جوبلی اور پلاٹینم جوبلی ہفتہ منایا جاتا۔ اِس پورے کام میں سب سے زیادہ لطف مجھے انٹرول میں آتا ، ایک تو فلم اُس وقت اپنے جوبن پر ہوتی اور پھر جونہی انٹرول ہوتا اور سکرین کے آگے پردہ آنے لگتا تو سینما ہال کی لائٹیں آن کردی جاتیں جس کے ساتھ ہی سینما کی کینٹین والے بوتلوں کے ’ڈالے‘ کندھوں پر رکھ کر نمودار ہوجاتےاور انہیں چابی سے کھڑکھڑانے لگتے۔ نوجوانوں کو شاید یہ بات عجیب لگے مگر حقیقت یہی ہے کہ ڈالا صرف ’ویگو‘ ہی نہیں ہوتا، بوتلوں کا بھی ہوتا ہے۔

ارے ہاں، وہ گانے والی بات تو رہ ہی گئی۔شائقین کو جب کوئی گانا پسند آجاتا تو وہ پروجیکٹر کی کھڑکی کے آگے ہاتھ کردیتے جس کا مطلب یہ ہوتا کہ انہیں یہ گانا دو مرتبہ دیکھنا ہے،تاہم جب متعدد شوز میں یہ بات دہرائی جاتی تو پھر بغیر فرمائش کے ہی گانا دو مرتبہ چلادیا جاتا۔اِن سینما گھروں کے باہر فلمی بورڈ بھی بہت دلکش ہوتے تھے، یہ بورڈ غالباً رائل پارک میں ہی پینٹ کیے جاتے تھے ،اب تو ڈیجیٹل پرنٹنگ کا زمانہ ہے ، وہ مصوری تو اب ماضی کا قصہ ہوئی۔فلم دیکھنے کے بعد لکشمی چوک سے کھانا کھانا بھی پیکج کا حصہ ہوا کرتا تھا،سینما گھروں کے باہر تانگوں اور رکشوں کی قطاریں لگی ہوتی تھیں اور ایک عجیب گہما گہمی اور میلے کا سا سماں ہوتا تھا۔آخری شو نو سے بارہ کا ہوتا تھا مگر اصل میں وہ فلم دس بجے شروع ہوتی اور رات ایک بجے ختم ہوتی تھی، یہ شو میں عموماً کاروباری لوگ دیکھتے تھے۔اتوار کو صبح گیارہ بجے ایک ’سٹوڈنٹ شو‘ بھی ہوا کرتا تھا، ہم لوگ اکثرکالج سے کلاس ’مِس‘ کرکے یہ شو دیکھنے جایا کرتے تھے۔ایسے ہی ایک مرتبہ ہم یہ شو دیکھنے گئے، ہال تقریباً خالی تھا، گیٹ پر کوئی نہیں تھا، ہماری جیب میں کسی پرانی فلم کی ٹکٹیں تھیں، ہم نے سوچا ٹکٹ خریدنے کی کوئی ضرورت نہیں، کس نے پوچھنا ہے، ہم چپ چاپ ہال میں جا کر بیٹھ گئے ، ایک دوست جوپیچھے رہ گیا اُس سے کسی نے ٹکٹ کا پوچھ لیا، بجائے اِس کے کہ وہ اپنی ٹکٹ خرید لیتا ، وہ خاص طور سے اندر آیا اور ہمیں آواز دے کو بولا’آجاؤ یار ، ہم پکڑے گئے ہیں۔‘

لکشمی چوک آج بھی وہیں ہے، دو چار سینما گھربھی موجود ہیں، مگر اب نہ وہ ماحول ہے اور نہ وہ دوست ۔ اور اب ہم میں ہمت بھی نہیں کہ مفت فلم دیکھنے کا رسک لیں، ایسے میں کسی نے کہہ دیا کہ ’آجاؤ یار ہم پکڑے گئے ہیں‘ تو کسی کو کیا منہ دکھائیں گے!

تازہ ترین