اسلام آباد(رپورٹ :،رانا مسعود حسین) سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود کا ’اوپن ٹرائل اڈیالہ جیل میں دوبارہ شروع ہوگیا، خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے دونوں کی حاضریاں لگانے کے بعد مزید سماعت پیر 4 دسمبر تک ملتوی کر دی۔
ملزمان کو آگاہ کیا گیا کہ ان کے خلاف مقدمہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کی شق 5 اور 9 کے تحت قائم کیا گیا، دونوں کا اکٹھا ٹرائل ہوگا، آئندہ سماعت پر ان کو استغاثہ کی نقول فراہم کی جائیں گی۔
عدالتی کارروائی کے دوران عوام اور میڈیا کے نمائندے عدالت میں موجود تھے، حکمنامہ کے مطابق سی آر پی سی کی سیکشن 352 پر مکمل عمل درآمد کیا گیا، عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو میڈیا کی موجودگی میں بولنے کی اجازت دی گئی، اور کافی وقت دیا گیا۔
آئین کے آرٹیکل 10 اے متعلق عمران خان کی درخواست پر دلائل وکیل سکندر ذوالقرنین سلیم کی عدم موجودگی کی وجہ سے نہ ہوسکے۔
دوران سماعت ملزم عمران خان نے ایک بار پھر اپنا سابق موقف دھرایا کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے معاون وزیر خارجہ ڈونلڈ لوء نے انھیں وزارت عظمیٰ کے عہدہ سے فارغ کروانے کے لئے آرمی چیف کو یہ سائفر بھیجا تھا، جوکہ پاکستان کے خلاف بہت بڑی سازش تھی۔
شریک ملزم شاہ محمود قریشی نے موقف اختیار کیا ہے کہ سیکرٹ ایکٹ ترمیم 2023 پر صدر عارف علوی نے دستخط ہی نہیں کیے ہیں انہیں عدالت میں طلب کرکے حلف پر پوچھا جائے کہ انہوں نے ترمیم پر دستخط بھی کیے تھے یا نہیں۔
عدالت کی اجازت سے ملزم عمران خان نے موقف اختیار کیا کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے معاون وزیر خارجہ ڈونلڈلوء نے یہ سائفر بھیجا تھا جوکہ پاکستان کے خلاف بہت بڑی سازش تھی، سائفر مجھے ہٹانے کیلئے بھیجا گیا تھا جو سائفر مجھے ہی ہٹانے کیلئے تھا تو وہ مجھے کیسے بھیجا جاسکتا تھا؟
یہ تو اتفاقا وزیر خارجہ، شاہ محمود قریشی کے ہاتھ لگ گیا تو ہمیں اس سازش کا علم ہوا اور میں نے خود بطور وزیر اعظم اس پر انکوائری کا حکم جاری کیا تھا، انہوں نے چیف جسٹس کو بھی خط لکھا، انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ بھیڑ بکریوں والا سلوک کیا جاتا ہے لیکن نواز شریف کو باہر سے یہاں بلا لیا گیا، عدالتوں میں ہمیں بولنے تک کا موقع نہیں دیاجاتا ہے۔