اسلام آباد (خالد مصطفیٰ) بھارت دریائے چناب کے دائیں کنارے کے معاون دریا مارو صدرپر1000میگاواٹ ہائیڈرو جنریشن پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والے 99000 ایکڑ فٹ کے لائیو ڈیم اسٹوریج کے ساتھ پہلا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ لگا رہا ہے لیکن ہوشیاری سے یہ دکھاوا کر رہا ہے کہ اس میں 88000 ایکڑ فٹ کا لائیو اسٹوریج ہوگا جس میں سپل ویز کے ناقص ڈیزائن کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ 1960 کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
یہ منصوبہ دو سال میں مکمل ہو گا۔ تاہم پاکستان نے پہلے ہی ڈیڑھ سال پہلے پراجیکٹ کے سپل ویز اور فری بورڈ ڈیزائنز پر سندھ آبی معاہدے کے ضمیمہ ای کے پیراگراف 11 کے تحت معاہدے کے آرٹیکل 9 کی درخواست کردی ہے۔
پاکستان کے کمیشن آف انڈس واٹرس کے ایک سینئر عہدیدار نے دی نیوز کو تصدیق کی کہ ہم مذکورہ منصوبے پر کافی محتاط ہیں اور آرٹیکل 9 کے تحت اس کے ڈیزائن پر پہلے ہی اعتراضات اٹھا چکے ہیں اور پی سی آئی ڈبلیو کی سطح پر مذاکرات مارچ 2024 سے پہلے بھارت کے ساتھ معاہدے کے آرٹیکل 9 کے تحت دوبارہ اٹھائیں گے۔
معاہدے کے تحت بھارت کو آبپاشی کے مقاصد کے لیے پاکستانی دریاؤں پر 3.6 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کا حق حاصل ہے اور اس مقصد کے لیے 99000 ایکڑ فٹ پانی کے ذخائر کے ساتھ پاکل ڈل پروجیکٹ کو مکمل کرنے جا رہا ہے۔
پاکستان کا موقف ہے کہ بھارت کے پاس پاکل ڈل ڈیم میں 99000 ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوگی اور یہ کہ پانی کی مقدار کو اس کے 3.6 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کے حق سے منہا کیا جائے۔
لیکن اسپل ویز کے ناقص ڈیزائن کے ساتھ بھارت یہ کہنے کا بہانہ کرنا چاہتا ہے کہ چونکہ اس کی لائیو ذخیرہ کرنے کی گنجائش 88000 ایکڑ فٹ ہے، اس لیے 88000 ایکڑ فٹ کے اس حجم کو پاکستان کے دریاؤں پر پانی ذخیرہ کرنے کے حق سے منہا کر لیا جائے۔
اگر آرٹیکل 9 کے تحت مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو پھر پاکستانی فریق سندھ طاس معاہدے میں مذکور دیگر کوششوں کو استعمال کرنا شروع کر دے گا اور اس کے بعد کوئی حل نہ ہونے کی صورت میں پاکستان کے پاس اس خاص منصوبے پر ثالثی عدالت میں جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچے گا۔