کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سابق سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے کہا کہ بھارت نے کشمیر کا معاملہ ختم کردیا مگر پاکستان کی طرف سے ختم نہیں ہوسکتا، نمائندہ خصوصی جیو نیوز عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ ایک قانونی سوال ہے کہ وہ جج جس کے فیصلے کیخلاف اپیل سنی جانی ہے کیا بنچ کی تشکیل میں ان کا بھی عمل دخل ہونا چاہئے یا نہیں ہونا چاہئے،میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سوال یہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے بھارتی عدالت کا فیصلہ مسترد کرنے کے بعد کیا ہوگا کیونکہ بھارت میں یہ معاملہ سیٹل ہوگیا ہے، بھارت میں اس وقت کسی ایسی حکومت آنے کے آثار نہیں جو بی جے پی کے نظریے سے ہٹ کر کوئی فیصلے سازی کرسکے، نریندر مودی اب بھی بہت مقبول ہیں اور 2024ء کے انتخابات میں ایک بار پھر حکومت بنانے کی مہم چلارہے ہیں جس میں انہیں کامیابی بھی مل رہی ہے۔ سابق سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے کہا کہ بھارت نے کشمیر کا معاملہ ختم کردیا مگر پاکستان کی طرف سے ختم نہیں ہوسکتا، پاکستان کشمیر پر اپنے اصولی موقف سے نہیں ہٹے گا، ہندوستان ہمیشہ کشمیر کو اپنے اندر ضم کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، کشمیر میں ہندوستان نواز کشمیری گروپوں نے بھی کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی مخالفت کی ہے، پاکستان کو کشمیر کے معاملہ پر حقیقت پسندی سے کام لینا چاہئے، 2007ء میں مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کا بارڈر سافٹ بنانا تھا اسے کشمیریوں کی بھی پذیرائی حاصل تھی، پاکستان میں گلگت بلتستان کو مکمل صوبہ بنانے کی تجویز بھی سامنے آتی رہی ہے، پاکستان کی داخلی سیاسی و معاشی کمزوریوں کی وجہ سے ہمارادوستوں سے تعلق بھی کمزور ہوگیا ہے، ہندوستان کا ہمارے دوست ممالک کے ساتھ پروفائل بڑھتا جارہا ہے۔ سابق سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری کا کہنا تھا کہ امریکا اور مغربی دنیا کو چین کے خلاف ہندوستان کی حمایت اور مدد درکار ہے ، اسی وجہ سے ہندوستان کے چین اور روس سے تعلقات پر بھی امریکا اسے کچھ نہیں کہتا ہے، خطے میں پاکستان کا بھی اپنا ایک مقام ہے مگر ہم سیاسی و معاشی طور پر مستحکم نہیں ہوپارہے ہیں۔ نمائندہ خصوصی جیو نیوز عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو غیرآئینی قرارد یا تھا، دلچسپ بات یہ ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن اسی قانون کے تحت ایک کمیٹی کے رکن بھی ہیں جسے انہوں نے غیرآئینی و غیرقانونی قرار دیا اور جسٹس مظاہر نقوی اپنی درخواستوں کی سماعت کے حوالے سے اسی پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے قانون کا حوالہ دے کر جلد اپنی درخواستیں سماعت کیلئے مقرر کرنا چاہتے ہیں۔ عبدالقیوم صدیقی کا کہنا تھا کہ ایک قانونی سوال ہے کہ وہ جج جس کے فیصلے کیخلاف اپیل سنی جانی ہے کیا بنچ کی تشکیل میں ان کا بھی عمل دخل ہونا چاہئے یا نہیں ہونا چاہئے، اچھی با بات ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے اعتراضات سامنے رکھے ہیں، ہم توقع کرتے ہیں آئندہ ججز کمیٹی میں ان کے اعتراضات کا جواب دیا جائے گا۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پانچ اگست 2019ء کو بھارتی حکومت نے ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر کے براہ راست مرکزی حکومت کے ماتحت کردیا تھا، بھارت میں اس کیخلاف آواز اٹھانے والوں کو امید تھی کہ بھارتی سپریم کورٹ نریندر مودی حکومت کے اس فیصلے کو مسترد کردے گی لیکن آج چار سال بعد بھارتی سپریم کورٹ نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے فیصلے کو درست قرار دیدیا ہے، اس کا مطلب ہے بھارت نے کم از کم اپنی طرف سے کشمیر کے تنازع کا چیپٹر کلوز کردیا ہے، پاکستان کے نگراں وزیرخارجہ جلیل عباس جیلانی نے بھارتی عدالت کا فیصلہ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے حتمی فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کی امنگوں سے ہوگا۔