• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:باقی رہنے والی اچھی باتیں ان کا ثواب تمہارے رب کے یہاں سب سے بہتر اور وہ امید میں سب سے بھلی ہیں۔(سورۃالکہف)

اس آیت سے واضح ہے،اچھائی باقی رہتی ہے۔ ثواب بھی جاری رہتا ہے۔ اسے اللہ رب العزت محفوظ رکھتا ہے۔ نیکی اور بھلائی، امیدیں ہیں اور صرف یہ ہی نہیں، وہ امیدوں میں بہترین امیدیں ہیں۔ امام غزالیؒ اور دیگر علما فرماتے ہیں کہ صالحین کی یاد الله کی رحمت کے نزول کا ذریعہ ہے، جس طرح بارش زمین کے لیے رحمت ہے ،اسی طرح صالحین کی یاد اس پر بسیرا کر نے والے اشر ف المخلوقات خاکی دل والوں کے لیے رحمت ہے،ان مردان خدا کے ذکر سے دل کا ریگستان سرسبزہ وجاتا ہے، انہی مردان باصفا وباخدا میں سے صوبہ بلوچستان سبی کے علاقے کے ایک بزرگ،فخر اہلسنت ،علامہ مفتی فتح محمد خان باروزئی بھی ہیں، جن کا عرس مبارک 25 دسمبر بروز ہفتہ بعد نماز عشاء جامعہ فیض العلوم نقشبندیہ قادریہ غریب آباد سبی میں منعقد ہوگا۔

علامہ مفتی فتح محمد خان باروزئی بن میر سعد اللہ خان باروزئی کی ولادت 1929ءکو سبی کے گاؤں کڑک میں ہوئی۔ ابتدائی عصری تعلیم آپ نے سبی کے گورنمنٹ ماڈل ہائی اسکول میں حاصل کی، جب کہ میٹرک کے ساتھ دینی تعلیم قرآن پاک ناظرہ حفظ فارسی اور فقہ کی کتب وعلوم اپنے ماموں خواجہ الحاج میاں نور احمد جان نقشبندی ؒ سے حاصل کیے، آپ نے مزید دینی تعلیم کے حصول کے لیے جامعہ مخزن العلوم نقشبندیہ سبی میں داخلہ لیا اور جامعہ کے سینئر اساتذہ میں مولانا الحاج محمد عمر بگٹی سے جو قلات کے قاضی بھی رہے ہیں، تمام اسلامی علوم وفنون کا حصول مکمل کیا۔ 

اس کے بعد آپ نے مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے رخت سفر باندھا،اور دورہ تفسیرِ قرآن پاک کےلیے شیخ القرآن مفتی عبد الغفور ہزاروی کے پاس وزیر آباد پنجاب تشریف لے گئے،اور علم منطق اور علم حدیث حاصل کیا، جبکہ تشریح و تحقیق کےلیے وڑچھ شریف چلے گئے اور استاذ العلماء مولانا عطا محمد بندیالوی ؒ کے پاس ایک سال کے عرصے میں تکمیل علم پر واپس ہوئے۔ اس دوران آپ کے ہم عصر و مکتب اور ہم سبق علمائے کرام میں مولانا مقصود احمد سابق خطیب داتا گنج بخش لاہور مولانا غلام رسول سعیدی تھے۔ آپ 1969 ءسے آٹھ سال تک سبی کی جامع مسجد گنبد والی کے خطیب بھی رہے اور جامعہ فیض العلوم نقشبندیہ کا افتتاح بھی گنبد مسجد سے ہوا۔

1976 ءمیں جمعیت علمائے پاکستان میں شمولیت اختیار کی اور تقریباً پندرہ سال تک جمعیت علمائے پاکستان بلوچستان کے صوبائی صدر اور نظام مصطفیٰ ﷺ کے نفاذ کے لیے نبرد آزما رہے۔ آپ تقریباً ًپانچ سال تک جامع مخزن العلوم نقشبندیہ محراب روڈ مستونگ کے ناظم اعلیٰ اور صدر مدرس بھی رہے، اس دوران آپ ڈسٹرکٹ زکوٰۃ کمیٹی سبی کے چیئرمین کے طور پر 1980 سے 1987 تک خدمات انجام دیتے رہے۔ 

اس طرح آپ کی پاکیزہ مجالس علم وفیض کے شفاف و جاری چشمے سے سیکڑوں شاگردوں نے استفادہ کیا، جن میں صاحبزادہ محمد عمر جان نقشبندی، صاحبزادہ فقیر اللہ جان نقشبندی، مولانا دائم الدین قادری، خطیب گنبد مسجد مولانا نبی بخش نقشبندی ابابکی، خطیب حنفیہ مسجد مولانا عبد الرحیم نقشبندی، خطیب اقصیٰ مسجدِ لوکو شیڈ، مولانا حبیب احمد لہڑی خطیب نورانی مسجد کوئٹہ،مولانا عبد الرزاق نقشبندی خطیب جامع مسجد گلزار مصطفیٰ، مولانا عبد الجبار ہانبھی نقشبندی خطیب جامع مسجد نورانی واپڈا مولانا عنایت اللہ سیلاچی تلی وغیرہ شامل ہیں۔

علامہ مفتی فتح محمد خان باروزئی کی رحلت بتاریخ 18 دسمبر 2020 بروز جمعۃالمبارک کو ہوئی۔ آپ کی تدفین وصیت کے مطابق جامعہ فیض العلوم نقشبندیہ کے احاطے میں ہوئی۔آپ کی رحلت سے نہ صرف سبی بلوچستان، بلکہ پاکستان سمیت عالم اسلام کو بڑاصدمہ پہنچا، آپ نے اپنی ذات کو عالم اسلام کے لیے وقف کر رکھا تھا ۔آپ نے کم و بیش 93 سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا، آپ کی ذات سےمحبت کر نے والے دلوں میں طویل عرصے تک آپ کی الفت اور یاد کو بھلایا نہیں جا سکے گا۔