مولانا نعمان نعیم
کسی شخص کا اپنے آپ کو قصداً اور غیر قدرتی طریقے سے ہلاک کرنے کا عمل خُودکُشی (Suicide) کہلاتا ہے۔ اس وقت پوری دنیا کے محروم لوگوں میں اپنی ذمے داریوں سے بے اعتنائی اور ایمان سے محرومی یا کم زوری کے باعث خود کشی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں بھی خودکشی کے واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ جبکہ خودکشی حرام موت ہے جو کہ کسی بھی حالت میں جائز نہیں۔
موجودہ دور میں خودکشی کی سب سے بڑی وجہ معاشی بدحالی اور مہنگائی ہے، جس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے ۔ ماہرین کے مطابق تنہائی، چڑچڑا پن، شرمندگی،نشہ آور اشیا کا استعمال اور ایسی باتیں جو شرمندگی یا تکلیف کاباعث بنیں، انسان کو ذہنی بیماریوں کی طرف دھکیلتی ہیں۔ زیادہ تر لوگ دماغی خرابی کی وجہ سے خود کشی کرتے ہیں اور بعض لوگ ایسے ہیں جو بیماری کی وجہ سے خود کشی کرتے ہیں۔ بیماری بھی دراصل دماغی توازن درہم برہم کر دیتی ہے اس طرح اپنے آپ کو ہلاک کرنے والوں کا تعلق بھی دماغ کے عدم توازن ہی سے ہوتا ہے۔
زندگی بہت بڑی نعمت ہے، ایسی نعمت جس کا کوئی بدل نہیں، جو جانے کے بعد واپس نہیں آتی ، انسان یہ نعمت اپنی محنت اور کدوکاوش سے حاصل نہیں کرتا ؛ بلکہ کائنات کے رب کا عطیہ ہے، ایسا عطیہ جو علم و تحقیق کی اتنی ترقی کے باوجود ایک سربستہ راز ہے، علم و سائنس کی ترقی اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ انسان اپنے ایک ایک عضو کے بارے میں جاننے لگا ہے کہ اس کا حجم کتنا ہے؟ سر کے بال سے پاؤں کے ناخن تک اس نے بدن کے ایک ایک انگ اوررگ و ریشہ کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے، لیکن آج بھی عقل اس گرہ کو کھولنے سے عاجز ہے اور قدرت کے رازِ سر بستہ سے پردہ اٹھانے میں ناکام ہے کہ آخر روح کی حقیقت کیا ہے؟
یہ جسم میں کیوں کر آتی ہے اور کہاں سے آتی ہے؟ پھر کس طرح چپ چاپ جسم کو داغِ فراق دے کر چلی جاتی ہے کہ نہ کوئی ہاتھ ہے، جو اسے تھام سکے، نہ کوئی حساس سے حساس مشینی آلات ہیں ، جو اس کو گرفتار کر سکیں، یا کم سے کم اس کی حقیقت کا ادراک ہی کر لیں، انسان کی یہ مجبوری اور علمی بے بسی خدا کا یقین دلاتی ہے اور ایمان میں تازگی پیدا کرتی ہے، اسی کو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ لوگ آپ ﷺ سے روح (زندگی) کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ ﷺ فرمادیں کہ یہ میرے رب کے حکم اور فرمان سے عبارت ہے : ’’قُلْ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّی‘‘۔ ( سورۂ بنی اسرائیل: ۸۵)
ہر انسان کی روح اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے پاس امانت ہوتی ہے ، جس میں خیانت کرنے کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہوتا، اس وجہ سے خودکشی کرنا (یعنی اپنے آپ کو خود ہی مارنا) اللہ تعالیٰ کی امانت میں خیانت کرنے کی وجہ سے اسلام میں حرام ہے اور یہ ایک گناہ کبیرہ (بڑا گناہ) ہے، تاہم اگر کوئی شخص خودکشی کو حلال اور جائز سمجھ کر نہ کرے، بلکہ مصائب اور پریشانیوں کی وجہ سے خودکشی کرلے تو وہ دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوگا، اور جس طرح دوسرے گناہ گار مسلمان اپنی سزا مکمل کرکے اللہ کے فضل وکرم اور اس کی رحمت سے جنت میں جائیں گے، اسی طرح خودکشی کرنے والے کا بھی یہی حکم ہوگا۔
خودکشی کرنے والے کی سزا کے بارے میں مذکور ہےکہ ایسے شخص کو اسی طرح کی سزا دی جائےگی جس طرح اس نے اپنے آپ کو قتل کیا ہو گا، جیسے کہ حدیث شریف میں خود کشی کی مختلف صورتوں کو ذکر کرتے ہوئے مذکور ہے:
حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمايا: جس نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر قتل کيا تو وہ جہنم کی آگ ميں ہميشہ کے ليے گرتا رہے گا، اور جس نے زہر پی کر اپنے آپ کو قتل کيا تو جہنم کی آگ ميں زہر ہاتھ میں پکڑ کر اسے ہمیشہ پیتا رہے گا، اور جس نے کسی لوہے کے ہتھیار کے ساتھ اپنے آپ کو قتل کيا تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہو گا اور ہميشہ وہ اسے جہنم کی آگ میں اپنے پیٹ ميں مارتا رہے گا۔"حدیث کاحاصل یہ ہے کہ اس دنیا میں جو شخص جس چیز کے ذریعہ خود کشی کرے گا، آخرت میں اسے ہمیشہ کے لیے اسی چیز کے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔
یہاں " ہمیشہ " سے مراد یہ ہے کہ جو لوگ خود کشی کو حلال جان کر ارتکاب کریں گے، وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے ، یا پھر " ہمیشہ ہمیشہ " سے مراد یہ ہے کہ خود کشی کرنے والے مدت دراز تک عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص خود کشی کو حلال سمجھ کر کرتاہے، تب تو ہمیشہ اس کی یہ سزا ہوگی، اور اگر کوئی شخص مذکورہ گناہ کو مباح سمجھ کر نہیں کرتا تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے فضل سے جب چاہے معاف کرکے جنت میں داخل کردے۔
انسان اپنی ’’ زندگی ‘‘ کا خود مالک نہیں ہے ، بلکہ امین ہے، زندگی اس نے حاصل نہیں کی ہے، بلکہ اسے عطا فرمائی گئی ہے، یہ اس کے پاس خالق کائنات کی امانت ہے اور ممکن حد تک اس کی حفاظت اس کی ذمہ داری ہے، اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے بیماری کا علاج کرنے کی تاکید فرمائی، خود آپ ﷺنے اپنا علاج کرایا اور اسی لئے علماء نے لکھا ہے کہ علاج کرانا توکل کے خلاف نہیں، کیوں کہ توکل اور قناعت کے اعلیٰ درجہ پر حضراتِ انبیائے کرامؑ فائز تھے، اور وہ علاج بھی کراتے تھے اور حفظانِ صحت کے اُصول کی رعایت بھی کرتے تھے۔
کوئی بھی ایسا عمل جو انسانی صحت یا زندگی کے لئے مضرت رساں ہو اور انسانی زندگی کو خطرہ میں ڈال سکتا ہو، جائز نہیں ، آپﷺ نے ہر ایسی چیز کے کھانے سے منع فرمایا، جو نشہ آور یا جسم کو نقصان پہنچانے والی ( مفتر) ہو ’’ مفتر‘‘ یعنی جسم کے لئے مضرت رساں چیزوں کے کھانے کی ممانعت تو ظاہر ہے کہ صحت اور زندگی کے تحفظ کے لئے ہے ، لیکن نشہ آور چیزوں سے منع کرنے کی وجہ جہاں یہ ہے کہ اس سے انسان کی عقل و فہم پر زد پڑتی ہے اور بہت سے اخلاقی مفاسد اس کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ، وہیں یہ بھی ہے کہ یہ ایک میٹھا زہر ہے، جو موت کی طرف زندگی کے سفر کی رفتار کو بڑھا دیتا ہے۔
اسی لئے فقہاء نے نباتات میں ایسی چیزوں کے کھانے کو ناجائز قرار دیا ہے، جو زہر کے قبیل سے ہوں اور انسانی زندگی کے لئے خطرہ کا باعث ہو سکتی ہوں۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ : ۳؍۵۰۶)
اسلام تو اللہ کی عبادت اور بندگی میں بھی ایسے غلو کو پسند نہیں کرتا کہ انسان اپنی صحت کو برباد کر لے اور جان جوکھم میں ڈالے، عہد نبوی ﷺ میں بعض حضرات نے یہ معمول بنالیا تھا کہ رات بھر عبادت میں مشغول رہتے اور دن میں روزہ سےرہتے، حضرت سلمان فارسیؓ نے انہیں اس سے منع کیا اور فرمایا: تم پر تمہاری آنکھ کا بھی حق ہے ، تمہارے اپنے وجود کا بھی حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی حق ہے ، اس لئے کبھی روزہ رکھو اور کبھی نہ رکھو ، نماز بھی پڑھو اور سونے کا بھی اہتمام کرو ، حضورﷺ کو جب اس کی اطلاع ملی تو آپ ﷺنے حضرت سلمان ؓ کے نقطۂ نظر کو درست قرار دیا اور تصویب فرمائی، ( بخاری : ۱؍۲۶۴) آپ ﷺ نے جان بچانے کے لئے دوا کے طور پر ایسی چیزوں کے استعمال کی بھی اجازت دی جو اصلاً ناجائز اور حرام ہیں ۔ (بخاری:۱؍۴۶)
یہ اور اس طرح کی اسلامی تعلیمات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جیسے اسلام نے دوسروں کی جان بچانے کا حکم دیا ہے ، اسی طرح انسان پر یہ بات بھی واجب ہے کہ وہ بحد امکان اپنی جان کی حفاظت کرے ؛ کیوں کہ زندگی اس کے پاس خدا کی امانت ہے اور امانت کی حفاظت اسلامی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے، اسی لئے اسلام کی نگاہ میں ’’ خود کشی‘‘ بہت بڑا گناہ اور سنگین جرم ہے، ایسا گناہ جو اس کو دنیا سے بھی محروم کرتا ہے اور آخرت سے بھی، خود قرآن مجید نے خود کشی سے منع فرمایا ہے ، ارشاد ہے : ’’ لا تقتلوا انفسکم‘‘ (سورۃالنساء: ۲۹) پیغمبر اسلام ﷺ کے متعدد ارشادات ہیں جن میں نہایت سختی اور تاکید کے ساتھ خودکشی کو منع فرمایا گیا ہے، حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر خودکشی کی، وہ جہنم کی آگ میں بھی اسی طرح ہمیشہ گرتا رہے گا، اور جس شخص نے لوہے کی ہتھیار سے خود کو ہلاک کیا، وہ دوزخ میں بھی ہمیشہ اپنے پیٹ میں ہتھیار گھونپتا رہے گا، (بخاری، : ۵۷۷۸) ایک اور روایت میں ہے کہ گلا گھونٹ کر خودکشی کرنے والا جہنم میں ہمیشہ گلا گھونٹتا رہے گا اور اپنے آپ کو نیزہ مار کر ہلاک کرنے والا دوزخ میں بھی ہمیشہ اپنے آپ کو نیزہ مارتا رہے گا۔ ( بخاری ، : ۱۳۶۵ ، عن ابی ہریرۃؓ)
حضرت طفیل بن عمر دوسی ؓ کے ساتھ ایک اور صاحب نے مدینہ ہجرت کی، وہ دوسرے صاحب بیمار پڑ گئے، تکلیف کی شدت کے باعث ان سے صبر نہ ہوسکا اور ایک ہتھیار سے اپنی اُنگلیوں کے جوڑ کاٹ لئے، رگیں کٹ گئیں اور خون اتنا بہہ گیا کہ انتقال ہوگیا، حضرت طفیلؓ نے انہیں خواب میں دیکھا کہ وہ بہتر حالت میں ہیں ،لیکن ان کے ہاتھ ڈھکے ہوئے ہیں، حضرت طفیل ؓ نے دریافت کیا کہ آپ کے رب نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ ان صاحب نے کہا: اللہ نے ہجرت کی وجہ سے مجھے معاف کر دیا، لیکن میرے ہاتھوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ جس چیز کو تم نے خود بگاڑ لیا ہے، میں اسے درست نہیں کرسکتا، حضرت طفیلؓ نے یہ خواب حضور ﷺ سے بیان کیا، آپ ﷺ نے دُعا فرمائی کہ بار الہا! ان کے ہاتھوں کو بھی معاف فرما دے۔ (صحیح مسلم ، : ۱۱۶ ، عن جابر ؓ)
صحابیٔ رسول حضرت جندب ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم سے پہلے کی قوموں میں ایک شخص کو زخم تھا، وہ تکلیف برداشت نہ کرسکا، چھری لی اور اس سے اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا، خون تھم نہ سکا اور موت واقع ہوگئی، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میرے بندہ نے اپنی ذات کے معاملہ میں مجھ پر سبقت کرنے کی کوشش کی، اس لئے میں نے اس پر جنت حرام کر دی، ( بخاری ،: ۳۴۶۳ ، مسلم ، : ۱۱۳) رسول اللہ ﷺ رحمت مجسم تھے، لیکن اس کے باوجود حضرت جابر بن سمرہ ؓ راوی ہیں کہ ایک شخص نے خودکشی کر لی، تو آپ ﷺ نے اس پر نمازِ جنازہ نہیں پڑھی۔ (مسلم ، : ۹۷۸ ، سنن ترمذی، : ۱۰۶۸) اسی لئے ایک جلیل القدر فقیہ اور محدث امام احمدؒکا خیال ہے کہ خودکشی کرنے والے شخص پر عام لوگ تو نمازِ جنازہ پڑھیں گے؛ لیکن امام المسلمین نماز جنازہ نہیں پڑھے گا۔ (سنن ترمذی، : ۱۰۶۸ )
رسول اللہ ﷺ کے ان ارشادات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ خودکشی اسلام کی نگاہ میں کتنا سنگین جرم ہے؟ یہ در اصل زندگی کے مسائل اور مشکلات سے راہِ فرار اختیار کرنا ہے اورآزمائشوں اور اپنی ذمہ داریوں سے بھاگ نکلنے کی ایک غیر قانونی اور ایک غیر انسانی تدبیر ہے، بدقسمتی سے ایمان سے محرومی یا کمزوری اور اپنی ذمہ داریوں سے بے اعتنائی کے باعث اس وقت پوری دنیا میں خودکشی کا رحجان بڑھتا جارہا ہے، مغربی ممالک میں سماجی نظام کے بکھراؤ کی وجہ سے عرصہ سے خودکشی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے، مغربی ممالک میں سماجی نظام کے بکھراؤ کی وجہ سے عرصہ سے خودکشی کو انسان کا نجی حق تسلیم کیا جاتا ہے، جو لوگ طویل عرصہ سے بیمار ہوں، ان کو بعض مغربی ملکوں میں مہلک انجکشن لگوا کر مرجانے کی قانونی اجازت حاصل ہوگئی ہے ، بلکہ ان کے ورثاء اور رشتے داروں کو بھی اس کی اجازت دے دی گئی ہے اور اسے ’’ قتل بہ جذبۂ رحم‘‘ کا خوبصورت نام دیا گیا ہے۔
خود کشی بنیادی طور پر ایمان کی کمزوری یا اس سے محرومی کی وجہ سے کی جاتی ہے، جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو، یقین کرتا ہو کہ اللہ دشواریوں کی سیاہ رات سے آسانی اور اُمید کی صبحِ نو پیدا کرسکتا ہے، جو شخص تقدیر پر ایمان رکھتا ہو کہ خوش حالی اور تنگ دستی اور آرام و تکلیف اللہ ہی کی طرف سے ہے، صبر و قناعت انسان کا فرض ہے، اور جو آخرت پر ایمان رکھتا ہو کہ زندگی کے مصائب سے تھکے ہوئے مسافروں کے لئے وہاں راحت و آرام ہے اور زندگی کی آزمائشوں سے راہِ فرار اختیار کرنے والوں کے لئے اللہ کی پکڑ اور عذاب ، وہ کیسے مشکل وقتوں میں اللہ کی چوکھٹ پر اپنی پیشانی رکھنے یا بارگاہِ ربانی میں دست سوال پھیلانے اور اللہ کی رحمت سے اُمید رکھنے کے بجائے مایوس ہو کر اپنے آپ کو ہلاک کرلے گا؟
ضرورت اس بات کی ہے کہ خودکشی کے اخلاقی اور سماجی نقصانات لوگوں کو بتائے جائیں، معاشرے میں لوگوں کی تربیت کی جائے کہ وہ تنگ دستوں اور مقروضوں کے ساتھ نرمی اورتعاون کا سلوک کریں، گھر اور خاندان میں محبت اور پیار کی فضا قائم کریں ، رسم و رواج کی جن زنجیروں نے معاشرے کو زخمی کیا ہوا ہے، انہیں کاٹنے کی کوشش کریں، شادی ، بیاہ کے مرحلوں کو آسان بنائیں، اور جو لوگ ذہنی تناؤ سے دو چارہو اور مشکلات میں گھرے ہوئے ہوں، ان میں جینے اور مسائل و مشکلات سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ پیدا کریں۔