اسلام آباد(محمد صالح ظافر خصوصی تجزیہ نگار ) بلوچستان کے وزیرقانون و پارلیمانی امور و پراسیکیوشن امان اللہ کنرانی نے کہا ہے کہ بدھ کو سپریم کورٹ کے ایک چھ رکنی معزز بنچ کی تشکیل اور عبوری فیصلے پر بعض وکلاء و میڈیا کی تنقید حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی امان اللہ کنرانی جو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رہ چکے ہیں اور ان کا شمار ملک کے سربرآوردہ ماہرین آئین میں ہوتا ہے،جمعرات کو ایک بیان کے ذریعے انہوں نے کہا ہے کہ بلوچستان کے ججوں کو ھمیشہ سولی پر لٹکاکر اور پُل صراط سے گُزار کر جج یا چیف جسٹس بنایا گیاہے بدھ کے سپریم کورٹ کے اچھے بُرے فیصلے میں بلوچستان سے کوئ جج شامل نہیں تھا تو پھر باربار جناب جسٹس قاضی فائز عیسی چیف جسٹس کے نام کی گردان اور کردار کشی اندر کا بُغض نہیں تو اور کیا ہے جب چیف جسٹس قاضی صاحب نے 2019 میں فیض آباد دھرنے کا فیصلہ دیا تو کٹہرے میں اس وقت کےچیف جسٹس کو نہیں قاضی صاحب کو کٹہرے میں کھڑا کیاگیا آج بھی فوجی عدالتوں میں سول افراد کے مقدمات نہ چلائے جانے کا فیصلہ بھی جناب چیف جسٹس قاضی فائزصاحب کے چیف جسٹس ھوتے ھوئے سپریم کورٹ کے اندر ایک سینئر جج کی سربراہی میں بنچ نے کیااور پھر حکم امتناع بھی ایک سینئر جج صاحب کی قیادت میں ہی قائم بنچ سے ملا ہے تو قاضی صاحب کو اول الزکر فیصلے پر تو کبھی ستائش نہیں ملی اور اب ضابطہ فوجداری کےاصولوں کے عین مطابق تاریخ میں پہلی بار آئین کے آرٹیکل 184(3) کے فیصلے خلاف سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ - 2023 کے تحت پہلے حق کااستعمال کرکے معمول کے عدالتی کاروائی کے تحت ایک عمومی نوعیت کے حکم امتناع جاری کیاگیا جو عدالتی کاروائیوں میں ھمیشہ دیا جاتا ہے۔