کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرام ’’رپورٹ کارڈ‘‘ میں میزبان علینہ فاروق کے سوال پاکستان تحریک انصاف کیلئے 2024میں کیا بہتر آپشن ہوسکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں تجزیہ کاروں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے مناسب فورم ڈائریکٹ سپریم کورٹ ہی ہوگا ،کیا الیکشن کمیشن نے یہ سوچا کہ ایسی صورتحال میں کوئی پارٹی الیکشن کیسے کروائے گی۔ تجزیہ کار بینظیر شاہ نے کہا کہ بہترین آپشن یہی ہوگا کہ بلے کا نشان واپس لیں کیوں کہ پی ٹی آئی کی پہچان ہے۔ آزاد امیدواروں کے ذریعے الیکشن لڑنا مشکل ہوگا سب تک یہ معلومات پہنچانا کہ کون سے حلقے میں کونسا امیدوار ہے۔ الیکشن کمیشن کے شیڈول کے مطابق تقریباً پندرہ دن ہیں جس کے بعد انتخابی نشان ملنا مشکل ہوجائے گا۔الیکشن کمیشن کے اس آرڈر سے بظاہر تو یہی لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف نے ان سوالوں کے جواب نہیں دیئے ہیں۔ اس وقت جو ماحول بنا ہوا ہے اس سے یہی لگ رہا ہے یہ تحریک انصاف کو اگلے الیکشن سے مکمل طور پر آؤٹ کرنا ہے یا شفاف الیکشن نہیں دینا۔راجا ریاض اگست میں کہہ چکے تھے کہ پی ٹی آئی کو انتخابی نشان نہیں ملے گا۔ سنیئر تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ تین رکنی بنچ نے کہا کہ بظاہر تحریک انصاف کو لیول پلئینگ فیلڈ نہیں مل رہی اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف کے پاس دس جنوری تک وقت ہے ہائیکورٹ پہلا آپشن ہے ڈائریکٹ سپریم کورٹ بھی سوچا جارہا تھا تحریک انصاف کی طرف سے چونکہ 184-3 کے تحت وہ جانا چاہ رہے تھے کیوں کہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے اس پارٹی کے ساتھ کروڑوں ووٹر جڑے ہوئے ہیں۔الیکشن کمیشن کی طرف سے ایک اور مایوس کن اور جانبدار فیصلہ دیا گیا ہے پچھلے تیس چالیس سال میں سب سے زیادہ متنازع الیکشن کمیشن ہے۔تجزیہ کار فخر درانی نے کہا کہ موجودہ معاملہ تحریک انصاف کی وجہ سے ہی ہے۔ پی ٹی آئی میں 2013 میں جو انٹرا پارٹی الیکشن ہوئے تھے جس میں پارٹی کے کئی رہنماؤں نے الزام لگایا تھا کہ دھاندلی کی گئی ہے جس پر عمران خان نے جسٹس وجیہ الدین کی سربراہی میں تحقیقات کرائیں اور جب انہوں نے کہا کہ الیکشن صحیح نہیں ہوئے ہیں تو عمران خان نے یہ نہیں مانا اور جسٹس وجیہہ الدین اور تسنیم نورانی پی ٹی آئی چھوڑ گئے تھے۔الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے مناسب فورم ڈائریکٹ سپریم کورٹ ہی ہوگا اگر یہ کسی دوسرے صوبے میں کریں گے تو اکبر ایس بابر کی طرح کوئی پٹیشنر جا کر درخواست دائرکرسکتا ہے۔ بائیکاٹ کا آپشن بھی موجود ہے۔ تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن نے اس بات پر غور کیا کہ تحریک انصاف نے کس صورتحال میں الیکشن لڑا ہے پارٹی کا ان کی پوری لیڈرشپ بند ہے۔کیا الیکشن کمیشن نے یہ سوچا کہ ایسی صورتحال میں کوئی پارٹی الیکشن کیسے کروائے گی۔الیکشن کمیشن کے سارے سوالات سر آنکھوں پر ہیں۔ الیکشن لڑنے کا آپشن تحریک انصاف کے لیے کم سے کم ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف الیکشن میں جاتی ہے تو اسے زیادہ مشکل کا سامنا ہوگا۔تحریک انصاف کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے سوائے اس کے کسی نہ کسی صورت میں الیکشن میں جائیں اگر عمران خان نے طے کیا ہے کہ آخر تک لڑنا ہے تو آخر تک جائیں۔جس طرح کے انہوں نے انٹرا پارٹی الیکشن کرائے ہیں تو کیا جنرل الیکشن اُس سے مختلف انداز میں ہوں گے ۔جو پارٹی اپنے آئین پر عمل نہیں کراسکتی تو وہ ملک کے آئین پر کیسے عمل کروائے گی اور اُس کی محافظ کیسے ہوگی۔