تحریر: شرجیل انعام میمن
شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو ہم سے بچھڑے 16 برس بیت گئے لیکن ان کی مظلومیت والی موت کا دکھ آج بھی تازہ ہے ۔ اس عظیم سانحہ کے بارے میں سوچ کر آج بھی روح کانپ جاتی ہے ، جب 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں دہشت گردوں نے حملہ کرکے انہیں بے دردی سے شہید کر دیا ۔ اس المناک واقعہ سے نہ صرف پاکستان کے عوام بلکہ دنیا بھر کی جمہوری قوتوں کو ایک ایسا صدمہ ملا ، جو غم ، اندوہ اور اداسی کی شکل میں نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے ۔آج بھی لوگ اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ جب شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو پہلے سے علم تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے تو پھر وہ 8 سالہ جلا وطنی ختم کرکے وطن واپس کیوں آئیں ؟ ان لوگوں کے سوال کا جواب یہ ہے کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو صرف اس بات کا علم ہی نہیں تھا بلکہ یقین تھا کہ کچھ ملکی اور عالمی قوتیں گٹھ جوڑ کرکے ان کے قتل کا منصوبہ بنا چکی ہیں ۔ اس منصوبے سے نہ صرف غیر ملکی حکومتیں انہیں آگاہ کر چکی تھیں بلکہ انہوں نے خود بھی کچھ عالمی رہنماؤں اور میڈیا کے نمائندوں کو اس منصوبے کے بارے میں بتا دیا تھا۔ انہوں نے اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کو بھی باقاعدہ طور پر اس منصوبے کے بارے میں بتا یا تھا۔ اس کے باوجود وہ وطن واپس آئیں اور انہوں نے اس سوال کا جواب خود ہی دے دیا تھا ۔ ایک انٹریو میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’ہم دلائل پر بات کرنے والے مرد و خواتین ہیں ۔ ہمارے بھی نظریات اور جذبات ہیں ۔ ہمیں معلوم ہے کہ کیسے زندہ رہنا اور کیسے مرنا ہے ۔ تاریخ شہیدوں سے عبارت ہے ۔ تاریخ کا تانابانا انقلاب کے دھاگوں سے بنا جاتا ہے ۔‘‘
18اکتوبر 2007ء کو جب شہید بی بی دبئی سے روانہ ہو رہی تھیں تو اس وقت بھی ان سے سب لوگ یہی کہہ رہے تھے کہ وہ وطن واپس نہ جائیں کیونکہ ان کی جان کو خطرہ ہے لیکن وہ بار بار ایک ہی بات کہہ رہی تھیں کہ میں اپنے عوام کو اکیلا نہیں چھوڑوں گی ۔ ہمارا جینا اور مرنا عوام کے ساتھ ہے ۔ اسی دن جب وہ کراچی ایئرپورٹ اتریں تو وہاں عوام کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ان کے استقبال کے لیے موجود تھا ۔ یہ وہ تاریخی دن تھا ، جب پاکستان کے عوام نے فیصلہ دے دیا تھا کہ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں ایک پرامن ، ترقی یافتہ اور جمہوری پاکستان چاہتے ہیں ۔ 18 اکتوبر 2007 ء کو پاکستان میں انقلاب برپا ہو چکا تھا ۔ جمہوریت اور عوام دشمن قوتوں نے عوامی طاقت کو کچلنے کے لیے بارود کی طاقت کا استعمال کیا اور دہشت گردوں کے ذریعہ محترمہ بے نظیر بھٹو پر حملہ کرکے یہ ثابت کر دیا کہ وہ ہر حال میں شہید بی بی کو جسمانی طور پر عوام سے جدا کرنے کے منصوبے پر بے رحمی سے عمل درآمد کرنا چاہتی ہے ۔ دہشت گردی کے اس واقعہ میں تقریبا 200 جمہوریت پسند شہید اور سیکڑوں زخمی ہو گئے ۔ اس واقعہ میں محترمہ بے نظیر بھٹو تو بچ گئیں لیکن ان کی غیر مطبوعہ کتاب’’ مفاہمت ‘‘ کے اوراق شہداء کے خون میں غلطاں ہو گئے ۔ اس کتاب میں پاکستان سمیت دنیا بھر سے دہشت گردی کے خاتمے اور پرامن عالمی معاشرے کے قیام کے لیے یہ حل دیا گیا تھا کہ دنیا میں جمہوریت کو پنپنے دیا جائے اور غریب اور امیر کے درمیان فرق کو ختم کیا جائے ۔ یہ تبھی ممکن ہو گا ، جب تصادم کی بجائے ہر جگہ مفاہمت کا راستہ اختیار کیا جائے گا ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ایک عالمی لیڈر کے طور پر عظیم مشن لے کر 18اکتوبر 2007ء کو پاکستان کی سرزمین پر اتری تھیں اور اس مشن کی تکمیل تبھی ممکن تھی کہ وہ پاکستان کے عوام کے ساتھ رہ کر اپنی جدوجہد کا آغاز کرتیں ۔ ان کے مشن کا پہلا مرحلہ یہ تھا کہ پاکستان میں جمہوریت بحال ہو ۔ اس کے بعد دنیا بھر کی جمہوری اور امن پسند قوتوں کو یکجا کرکے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے اور جمہوری و سیاسی عمل کیلئے سازگار ماحول پیدا کرکے دنیا سے غربت کا خاتمہ کیا جائے ۔ عوام سے دور رہ کر اس مشن کی تکمیل ممکن نہیں تھی ۔ 18اکتوبر 2007کو کراچی میں رونما ہونے والے سانحہ کارساز کے بعد پھر شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو پارٹی رہنماؤں اور دیگر بہی خواہوں نے یہ مشورہ دیا کہ وہ دوبارہ پاکستان سے باہر چلی جائیں اور باہر بیٹھ کر ہی انتخابی مہم چلائیں ۔ 19اکتوبر 2007ء کو اس سانحہ کے بعد جب بلاول ہاوس کراچی میں انہوں نے پریس کانفرنس کی تو ان سے کسی صحافی نے سوال کیا کہ 18اکتوبر کے واقعہ کے بعد بھی کیا وہ انتخابات کے لیے عوامی رابطہ مہم چلائیں گی ؟ اس پر انہوں نے بغیر کسی توقف کے جواب دیا کہ’’ وہ لوگ بھی یہی چاہتے ہیں کہ میں انتخابی مہم نہ چلاؤں اور واپس چلی جاؤں ۔ وہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت بحال نہ ہو لیکن اب اگر جمہوریت بحال نہ ہوئی تو پاکستان کے لیے خطرات بڑھ جائیں گے ۔ میں اپنے لوگوں کے ساتھ رہوں گی ۔
پھر دنیا نے دیکھا کہ شہید بی بی نے دوبارہ عوامی رابطہ مہم شروع کر دی ۔ وہ ہر جلسے میں یہی کہتی تھیں کہ میں پاکستان میں جمہوریت کے لیے اپنی جان کا رسک لے کر آئی ہوں ۔ 18اکتوبر کے سانحہ کے بعد انہوں نے اپنی کتاب مفاہمت میں کچھ اور اضافہ کیا اور ایک جگہ لکھا کہ’’ میں نے اپنے والد کی گرفتاری ، قید اور قتل کا عذاب جھیلا تھا اور جانتی تھی کہ روح کے ایسے زخم کبھی نہیں بھرتے ۔ اپنے والد کی موت پر جو تکلیف میں نے جھیلی ، اس سے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے میں کچھ بھی کرنے کے لیے تیار تھی ۔ مگر یہ واحد کام تھا ، جو میں نہیں کر سکتی تھی ۔‘‘ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ان الفاظ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں سے بہت زیادہ پیار کرتی تھیں اور انہیں اپنی موت کا صدمہ بھی نہیں دینا چاہتی تھیں ۔ اس کے باوجود انہوں نے شعوری طور پر اپنی موت قبول کی ۔ انتخابی مہم کے دوران ایک مرتبہ وہ گڑھی خدا بخش میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کے مزار پر گئیں اور مزار کے تمام دروازے بند کراکے اکیلے کئی گھنٹے وہاں بیٹھی رہیں ۔ اس دن ہی لوگوں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ شہید بی بی کو اپنی موت کا پورا یقین ہے ۔ اس کے بعد وہ دوبارہ انتخابی مہم پر نکل گئیں ۔ اس دوران بھی لوگ ان سے کہتے رہے کہ وہ جلسوں میں نہ جائیں ۔ لیکن ان کا یہی جواب ہوتا تھا کہ میں نے اگر ایسا کیا تو پاکستان کے لیے خطرات بڑھ جائیں گے ۔ پھر وہی ہوا ۔ 27دسمبر 2007 ء کو وہ عوام کے درمیان ہی شہید ہو گئیں ۔ آج اگر پاکستان میں جمہوریت ہے تو شہید بی بی کی قربانی کا نتیجہ ہے ۔ شہید بی بی تاریخ میں بہادری اور جرأت مندی کا استعارہ ہیں ۔ شہید بی بی اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں سے محبت کا استعارہ ہیں ۔ انہوں نے اپنی قربانی سے اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں سے جو اٹوٹ رشتہ قائم کیا ہے ، وہ ہمیشہ قائم رہے گا ۔ ہم سب پر شہید بی بی کے خون کا قرض ہے کہ ہم پاکستان میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے ان کے مشن کو جاری رکھیں ۔