سال2023 ء جاتے جاتے مسلم دنیا کو انتہائی گہرے زخم لگا گیا، ایسے زخم، جن میں مسلم ممالک کی بےحسی کے نشتر بھی شامل ہیں۔ اسرائیل نے7 اکتوبر سے حماس کے ایک ٹارگٹڈ حملے کے جواب میں ہرطرح کے جنگی قوانین بالائے طاق رکھتے ہوئے نہتّے فلسطینوں کو، جن میں بچّوں، عورتوں، بوڑھوں کی بہت بڑی تعداد شامل تھی، وحشیانہ بم باری کا نشانہ بنایا، جس سے غزہ کھنڈرات میں بدل گیا، اسپتال ملیامیٹ ہوگئے، مریض، طبّی عملہ ملبے تلے دب گئے۔
اِس فضائی اور زمینی کارروائی میں20 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوئے، لیکن اتنی تباہی و بربادی اور نسل کُشی کے باوجود عالمی طاقتوں اور مسلم ممالک کے رہنمائوں کی بے حسی برقرار رہی۔ سفاکانہ نسل کشی کے خلاف دنیا بَھر کے عوام ایک طرف اور اُن کی حکومتیں دوسری جانب کھڑی نظرآئیں۔ دنیا بھر میں شہری لاکھوں کی تعداد میں فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل کی مخالفت میں سڑکوں پر نکلے، جب کہ عالمی طاقتیں سلامتی کاؤنسل میں جنگ بندی کی قراردادیں روکنے اور اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی کے لیے کوشاں رہیں۔
گزشتہ برس ایک خوش آئند پیش رفت سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کی صُورت ضرورہوئی۔ تُرکیہ، ملائیشیا اور مالدیپ میں انتخابات ہوئے، ایک اہم پیش رفت مالدیپ میں دیکھنے میں آئی، جہاں محمّد معیزو نےبرسرِاقتدارصدرکو شکست دے کر عہدہ سنبھالا، اُنہوں نےاپنےانتخابی نعرے کو عملی صُورت دیتے ہوئے مُلک میں موجود بھارتی فوجیوں کو نکل جانے کا حکم دیا۔
فلسطین: 2023ء فلسطینیوں کے لیے شدید تباہی و بربادی لے کر آیا۔7 اکتوبر کو حماس کے جنگ جوئوں نے اسرائیل کے چند مقامات پرٹارگٹڈ حملے کیے اور درجنوں اسرائیلیوں کو یرغمال بنا لیا۔ اسرائیل نے حماس کے حملوں میں اپنے سیکڑوں افراد کے مارے جانے اور 240 کو قیدی بنائے جانے کا اعتراف کیا، جن میں سے بیش تر فوجی تھے۔ اسرائیل نے اِس حملے کے جواب میں ہرطرح کے جنگی قوانین بالائےطاق رکھتے ہوئے غزہ کی پٹّی پر کارپٹ بم باری کی۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق، اسرائیل نے صرف غزہ کی پٹّی کے اسپتالوں پر335 فضائی حملے کیے۔
اسرائیل نے ڈیڑھ ماہ کے دوران دوسری جنگِ عظیم کے دو ایٹمی حملوں سے زیادہ بارود فلسطینیوں پر برسایا، جس میں20 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوئے، جن میں ساڑھے6 ہزار سے زاید بچّے اور3 ہزار سے زائد خواتین شامل تھیں۔ کارپٹ بم باری میں مہاجر کیمپس، تعلیمی اداروں، مساجد، گرجاگھروں، اسپتالوں اوررہائشی عمارتوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل کی سفاکیت و بربریت کا یہ عالم رہا کہ غزہ کا پانی بند کرنے کے ساتھ بجلی اور گیس کی فراہمی بھی منقطع کردی۔ اِن حالات میں امدادی تنظیموں کو کام کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا رہا، جب کہ عالمی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق وہاں اقوامِ متحدہ کے 150 سے زاید کارکنان بھی اسرائیلی بم باری کی لپیٹ میں آکر جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔
اسرائیل کی جنگی خلاف ورزیوں کے خلاف سب سے مؤثر آواز جنوبی افریقا نے اُٹھائی، جس کی وزیرِخارجہ نےعالمی جنگی جرائم کے ٹریبونل میں اسرائیل کےخلاف مقدمہ دائرکردیا، بعدازاں تُرکیہ سمیت دیگر ممالک نے بھی اس کی حمایت کی۔ اسرائیل نے پہلے غزہ کی پٹّی کے سب سے بڑے اسپتال، الشفا پر مسلسل بم باری کر کے اُسے تباہ کیا اور پھر ٹینکوں سے اُس پر چڑھائی کردی۔ اسرائیل نے الزام لگایا کہ الشفا اسپتال کےنیچے سرنگیں ہیں، جہاں حماس کے جنگ جُوئوں کے ساتھ یرغمالی بھی موجود ہیں، تاہم ایک ہفتے سے زائد کےمحاصرے اور بھرپور تلاشی کےباوجود وہ اپنےالزام کی حمایت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا۔
اسرائیل کے سابق وزیرِاعظم، ایہود البارک نے امریکی نشریاتی ادارے، سی این این کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں تسلیم کیا کہ غزہ کے اسپتالوں کے نیچے سرنگیں اسرائیل نے اپنی سہولت کے لیے بنائی تھیں۔ اُنہوں نےکہاکہ’’یہ 4، 5دہائیوں پرانی بات ہے، جب اسرائیل کو بنکرز کی ضرورت تھی۔‘‘ اسرائیل نے الشفا کےبعد انڈونیشین اسپتال پربم باری کی اوراُسےبھی تباہ کردیا۔ اس اسپتال میںبےگھر ہوجانے والے2 ہزار فلسطینی بچّے، خواتین اور بوڑھے بھی پناہ لیے ہوئے تھے۔
ایک طرف تو غزہ پراسرائیلی بم باری جاری رہی، تو دوسری طرف عالمی طاقتوں نے اس دوران4 مرتبہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کاؤنسل میں پیش کردہ قراردادیں مسترد کرکے جنگ بندی کا راستہ روکا۔بعدازاں، چند روزہ جنگ بندی ہوئی، جس کے دوران قطر کی ثالثی میں قیدیوں کا تبادلہ ہوا، تاہم، جنگ بندی کے خاتمے پر اسرائیل نے ایک بار پھر نہتّے فلسطینیوں پر دھاوا بول دیا۔اُدھر امریکا، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کے رہنمائوں کی جانب سے اسرائیل کی مسلسل حمایت کےباوجود، وہاں کے عوام لاکھوں کی تعداد میں فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کے لیےسڑکوں پر نکلے۔
برطانیہ میں حکم ران کنزرویٹو پارٹی اور اپوزیشن، لیبر پارٹی کو اپنے ارکانِ پارلیمان اور کاؤنسلرز کی جانب سے بغاوت کا بھی سامنا کرنا پڑا اور کئی ایک اپنے عُہدوں سے مستعفی ہوگئے۔ لیبر پارٹی کے، جسے رائے عامّہ کے مطابق اگلی برطانوی حُکم ران پارٹی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، فرنٹ اور بیک بینچرز ارکان کے علاوہ شیڈو کابینہ میں شامل افراد نے بھی اپنے عُہدوں سے استعفے دیئے۔
وزیرِاعظم رشی سوناک اور اپوزیشن لیڈر، سر کیئراسٹارمر کی پالیسیز کے خلاف ہر ہفتے برطانیہ کے مختلف شہروں میں لاکھوں افراد احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلتے رہے، لندن میں4 لاکھ سے زائد افراد نے فلسطینیوں کی حمایت میں ریلی نکالی۔ اس کے علاوہ گلاسگو، ایڈنبرا، مانچسٹر، برمنگھم اور دیگر شہروں میں بھی بڑے بڑے مظاہرے ہوئے۔واشنگٹن، نیویارک کے علاوہ کئی امریکی شہروں میں بھی ہزاروں افراد نے ریلیاں نکال کر فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل کے خلاف مظاہرے کیے۔
ان مظاہروں کی اہم بات یہ تھی کہ ان میں عیسائیوں کے علاوہ یہودی بھی شامل رہے، جنہوں نے اسرائیلی وزیرِاعظم کو واضح پیغام دیا کہ اِس وحشیانہ نسل کُش جنگ میں وہ اُس کے ساتھ نہیں ہیں۔ 21 نومبر کو برکس کے ورچوئل اجلاس میں سعودی عرب کے ولی عہد، شہزادہ محمّد بن سلمان نے خطاب کرتے ہوئےعالمی طاقتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اسرائیل کواسلحے کی فراہمی بند کریں۔ نیز، آئرلینڈ کی پارلیمنٹ سمیت کچھ ممالک نے فلسطین کوبطورریاست تسلیم کرنے کے فیصلے بھی کیے۔
سعودی عرب: گزشتہ برس مارچ میں مسلم دنیا کو ایک بڑی خوش خبری سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کی صُورت ملی۔ دونوں ممالک کے درمیان برسوں سے جاری کشیدگی کے خاتمے میں چِین کی سفارت کاری کا کلیدی کردار رہا۔ دونوں ممالک نےاس پیش رفت کےبعداپنےاپنے سفارت خانے دوبارہ کھولےاورمسلم ممالک سمیت دنیا بَھر نے اس امر کا خیرمقدم کیا، تاہم امریکا کے لیے یہ پیش رفت تشویش کا باعث بنی، کیوں کہ اس سے خطّے میں طاقت کا توازن بدلا اورعوام میں مستقبل میں امن و استحکام کی امید بھی پیدا ہوئی۔
تُرکیہ: مئی میں ترکیہ میں عام انتخابات ہوئے، جس میں گزشتہ 20برس سے جاری رجب طیّب اردوان کے اقتدار کو پہلی مرتبہ مقابلے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس مرتبہ صدارتی انتخاب میں کسی امیدوار کے واضح برتری نہ لینے پر الیکشن کا دوسرا مرحلہ ہوا۔14 مئی کے پہلے مرحلے میں تیسرے امیدوا کے نکل جانے کے بعد دوسرے مرحلے کےلیےووٹنگ دو امیدواروں کے درمیان ہوئی، جس میں رجب طیّب اردوان نے52.18 فی صد ووٹ لے کر کام یابی حاصل کی، جب کہ اُن کے حریف، کمال کلید اروغلو47.82 فی صد ووٹ حاصل کر سکے۔
یہ 14 مارچ 2003 ء سے اقتدار میں رہنے والے رجب طیّب اردوان کی مسلسل چَھٹی کام یابی تھی، اِس سے قبل وہ 2003 ء سے28 اگست 2014ء تک 3 مرتبہ وزیرِ اعظم رہے، جس کے بعد آئین میں ترمیم کر کے اختیارات وزیرِاعظم سےصدرکومنتقل کیے گئے اور پھر 2014ء کے بعد سے یہ اُن کی بطور صدر مسلسل تیسری کام یابی تھی۔ وہ27 مارچ 1994ء سے6 نومبر 1998ء تک استنبول کے میئر بھی رہے۔ 69 سالہ رجب طیّب اردوان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، اُنہیں 2016 ء میں فوجی بغاوت کا بھی سامنا کرنا پڑا، جب فوج نے اُن کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کی، جسےعوام نے فوجی ٹینکس کے سامنے لیٹ کر ناکام بنایا۔
ملائیشیا: ایک اور اہم مسلم مُلک ملائیشیا کو2018 ء کے انتخابات کے بعد سے سیاسی عدم استحکام کا سامنا تھا، جس کے بعد گزشتہ برس10 اکتوبر کو وزیرِاعظم، اسماعیل صابری یعقوب نے پارلیمنٹ تحلیل کردی۔ یوں مُلک میں19 نومبر کو عام انتخابات کا انعقاد ہوا، تاہم کوئی سیاسی جماعت سادہ اکثریت حاصل نہ کر سکی اور ایک معلّق پارلیمنٹ وجود میں آئی، جس میں سابق اپوزیشن لیڈر انور ابراہیم کے انتخابی اتحاد نے 222 کے ایوان کی سب سے زیادہ 82 نشستوں پر کام یابی حاصل کی۔ سابق وزیرِاعظم، محی الدّین یاسین کی پارٹی نے73 نشستیں حاصل کیں،جب کہ وزیرِاعظم، اسماعیل صابری یعقوب کی جماعت کو اَپ سیٹس کا سامنا رہا اور اُن کی پارٹی کو30 نشستوں پر کام یابی ملی۔
مالدیپ: عالمی مبصّرین کے ساتھ بھارت کی بھی مالدیپ کےعام انتخابات کے نتائج پر گہری نظر رہی، جہاں دہائیوں سےبھارتی اثر و رسوخ قائم تھا، تاہم اِس مرتبہ اس کے اثر و رسوخ کو اپوزیشن لیڈر، محمّد معیزو نے چیلنج کیا اور اپنی انتخابی مہم، مُلک میں امن و امان کی بحالی کے نام پر موجود بھارتی فوجیوں کی واپسی کے نعرے کے ساتھ چلائی۔
اُنہوں نے عوام سے وعدہ کیا کہ وہ برسرِاقتدار آ کر آرچی پیلاگو میں موجود بھارتی فوجیوں کو دیس نکالا دیں گے۔9 ستمبر کومالدیپ میں انتخابات ہوئے، تاہم، کسی جماعت کو اکثریت نہ ملنے کے باعث یہ انتخابات دوسرے مرحلے تک چلے گئے اور 30 ستمبر کو صدر ابراہیم محمّدصالح اور حریف، محمّد معیزو کے درمیان دوبارہ مقابلہ ہوا، جس میں پیپلز نیشنل کانگریس کے امیدوار اور مالی کے میئر، محمّد معیزو نے صدر صالح کو54 فی صد ووٹوں سے شکست دے دی۔ یہ مالدیپ کی تاریخ کا مسلسل چوتھا الیکشن تھا، جس میں برسرِاقتدار صدر کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کام یابی کے بعد نومنتخب صدر محمّد معیزو نے مُلک سے غیرمُلکی فوجیوں کے انخلا کا اعلان کیا اور عُہدہ سنبھالنے کے بعد بھارتی سفیر کو طلب کرکے اُنہیں اس حکومتی فیصلے سے آگاہ کردیا۔ اُنہوں نے مُلکی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی لاتے ہوئے چین سے تعلقات بہتر بنانے کا بھی اعلان کیا۔
کینیا: دارالحکومت نیروبی کےنواح میں اکتوبر 2022ء میں قتل کیے جانے والے پاکستانی صحافی، ارشد شریف کیس کے ضمن میں گزشتہ برس 31 اکتوبر کو کینیا میں بڑی پیش رفت اُس وقت سامنے آئی، جب کجیاڈو ہائی کورٹ نے ایلیٹ کینین پولیس یونٹ کے خلاف، جسے جنرل سروس یونٹ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے، ماورائے قانون ہلاکت کے تحت مقدمہ کھول دیااوران پرفردِجرم عائد کردی۔ایلیٹ کینین پولیس یونٹ کے خلاف یہ کیس ارشد شرف کی بیوہ، جویریہ صدیق نے دائر کیا تھا۔ 19 ستمبر کو کینیا کا ایک فوجی ہیلی کاپٹر صومالیہ کی سرحد کے قریب حادثے کا شکار ہوا، جس کے نتیجے میں اُس میں سوارعملے سمیت تمام8 فوجی جاں بحق ہوگئے۔
یمن: گزشتہ برس یمن انسانی بحران کے لحاظ سے دنیا میں سرِفہرست رہا، جہاں ایک کروڑ 11لاکھ بچّے خانہ جنگی سے متاثر ہوئے۔8 سالہ خانہ جنگی کے باعث یمن کا معاشی، اقتصادی نظام تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے، یونیسیف کے مطابق اس خانہ جنگی سے2 کروڑ16 لاکھ افراد متاثر ہوئے، جب کہ45 لاکھ افراد اندرونِ مُلک بے گھر ہوئے۔
شام: شام میں بھی مارچ2011 ء سے جاری خانہ جنگی اور بدامنی کا سلسلہ مسلسل بارہویں سال بھی جاری رہا۔ اس خانہ جنگی کے نتیجے میں چھےلاکھ سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جن میں سے3 لاکھ عام شہری ہیں۔ اس خانہ جنگی نے اندرونِ مُلک67 لاکھ افراد کو اپنے گھروں سے بےگھر کیا، جب کہ 66 لاکھ افراد شام چھوڑ کے دیگر ممالک چلے گئے۔
سوڈان: بدامنی اور خانہ جنگی کا سلسلہ2023 ء میں بھی جاری رہا۔ خرطوم اور دارفور میں سوڈانی آرمڈ فورسز اور پیراملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز کی باہمی لڑائی میں مزید13 لاکھ افراد مُلک چھوڑ کر گئے، جب کہ مُلک کے اندر48 لاکھ افراد کو اپنا گھر بار اور علاقہ چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں منتقل ہونا پڑا۔ گزشتہ برس خانہ جنگی میں لگ بھگ10 ہزار افراد ہلاک اور12 ہزار زخمی ہوئے۔
مصر: صدر عبدالفتاح السیسی کی حکومت گزشتہ برس بھی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کےباعث عالمی سطح پر شدید تنقید کی زَد میں رہی۔ حکومت مخالف سیاست دانوں کی غیر قانونی حراست، تشدّد اور دباؤ کے تحت اعترافِ جرم میں پولیس اور سیکیوریٹی فورسز ملوّث رہیں۔ حکومت نےشمالی سینائی میں جنگ جُوئوں کے ساتھ لڑائی میں کام یابی کا دعویٰ کیا، تاہم اپریل کے اِس حکومتی اعلان کے باوجود جولائی اور اگست میں سوشل میڈیا پرآنے والی ویڈیوز اور تصاویر اس دعوے کی نفی کرتی نظر آئیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپریل میں جاری ہونے والی مشترکہ رپورٹ بھی چشم کُشا تھی، جس کے مطابق مصری حکومت کی قید میں موجود افراد، خصوصاً حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں، صحافیوں اور سماجی رہنمائوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اُن میں سے بیش ترلاپتا کردیئے گئے ہیں، جب کہ رشتے داروں کے سامنے اعترافِ جرم کے لیے جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنائے جانے تک کے واقعات سامنےآئے۔ اِس وقت بھی عدالتوں نے ہزاروں افراد بنا کسی کارروائی کے جیل اور حراستی کسٹڈی میں دیئے ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، مِصری پارلیمنٹ صرف ربراسٹیمپ کے طور پر کام کر رہی ہے۔ غزہ میں اسرائیلی ریاستی دہشت گردی کے بعد، دنیا بھر سے مصر سے رفح بارڈر کھولنے کا مطالبہ کیا جاتا رہا،مگر مِصرنےان اپیلزپرکان نہ دھرااورکئی روز بعد، مختصر مدّت کے لیےوقفے وقفے سے یہ بارڈر کھولا، جس کے بعد عالمی امدادی ادارے جنگ سے متاثرہ علاقے میں امداد پہنچا سکے۔مصر سے متعلق ایک اہم خبر یہ رہی کہ دسمبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں صدر سیسی تیسری بار مُلک کے صدر منتخب ہوگئے۔ سرکاری اعلان کے مطابق اُنھوں نے 89.6 فی صد ووٹس حاصل کیے۔
مسلم ممالک کا یہ جائزہ ایک دو خوش کُن واقعات کے سوا مجموعی طور پر اُمّہ کی تباہی کا نوحہ ہے۔ اُمیداوردُعا ہے کہ رواں برس مسلم دنیا میں امن قائم ہو اوریہاں کے باسی بھی دنیا کےدیگرممالک کی طرح سُکون واطمینان کے ساتھ اپنی ریاستوں کوترقّی کرتا دیکھ سکیں۔