• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عشرت زاہد

بارش کے بعد کی نرم دھوپ اور ہلکی خنک ہواؤں سے موسم خوش گوار ہوگیا تھا، لیکن اُس کے اندر کا موسم بےحد اداس تھا۔ گرچہ بےبسی، کم مائیگی کے احساس نے اُس کا چاند چہرہ گہنا دیا تھا، مگر وہ بلاشبہ بےحد حسین تھی۔ صبیح چہرے پر بڑی بڑی اداس آنکھوں نے سوگوار حُسن کو مزید جلا بخش دی تھی۔

سر پر بڑی سی سفید چادر، ہونٹوں پرچُپ کی مُہر اور چہرے پر بلا کی معصومیت، جو دیکھنے والے کو اپنی جانب ضرور متوجّہ کرتی۔ اُس کا نام ثمن تھا۔ اُس کے شوہر کی موت کو چند ماہ گزر چُکے تھے۔ سسرال والوں نے نہ صرف شوہر کے دفتر سے ملنے والے بقایا جات اور جائیداد کے کاغذات پر قبضہ کرلیا بلکہ اُسے گھر سے بھی نکال دیا تھا۔ 

اُس کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ اُن کے بیٹے کی پسند تھی اور بیٹے نےگھروالوں کی مرضی کے خلاف اپنی پسند سے شادی کی تھی۔ مگر وہ زندگی بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ وفا نہ کر سکا۔ اچانک ہونے والےایک حادثے میں جان کی بازی ہار گیا اور پیچھے اکیلی ثمن اِن نامساعد حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیےرہ گئی۔

آج وہ انصاف کی اُمید لیے مشہور ایڈووکیٹ یاسرحسن کے دفتر آئی تھی۔ اُن کے اسسٹنٹ نے بہت مشکل سے ملاقات کا وقت دیا تھا۔ وکیل صاحب نے کم عُمری ہی میں90 فی صد کیسز جیت کر اپنی حاضردماغی اور ذہانت کا لوہا منوایا تھا۔ اپنے دفترمیں کتابوں کے درمیان بیٹھا یاسر حسن کسی عدالتی فیصلے پر نوٹ لکھ رہا تھا، جب ثمن نے دروازے پر دستک دی، اور اُس نےنظریں اُٹھائیں۔ 

چند لمحے تو وہ اُس سے نظر ہی نہیں ہٹا سکا تھا، لیکن پھر فوراً خُود پر قابو پا لیا کہ یہ اُس کے پیشے کا تقاضا تھا۔ ’’جی بی بی! تشریف رکھیں۔ کیسے آنا ہوا؟‘‘ اُس نے لہجے کو حتی الامکان خشک رکھنےکی کوشش کی۔ ثمن اپنی امّاں کے ساتھ گئی تھی۔ انہوں نے مختصر الفاظ میں سارا مسئلہ بتایا۔ 

اُس کے بعد وکیل صاحب نےثمن سےبہت سےسوالات کیے۔ جن کے اُس نے لرزتی آواز میں جواب دینے کی کوشش کی۔ ’’انہوں نے میرا سب کچھ چھین لیا وکیل صاحب!‘‘ اُس کی بڑی بڑی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر یاسر جیسا مضبوط اعصاب رکھنے والا شخص بھی جزبز ہوکررہ گیا تھا۔ مگر پوری سنجیدگی سے بولا۔ ’’دیکھیں بی بی! مسائل اِس طرح رو دھو کرحل نہیں ہوا کرتے۔ 

عورت کو مضبوط بن کراپنےحقوق کی جنگ لڑنی پڑتی ہے۔ آپ اس طرح کم زوری دکھائیں گی تو سامنے والا شیر ہوگا ہی۔ اگر آپ حق پر ہیں تو مدمقابل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا سیکھیں، وگرنہ یہ دنیا تو آپ جیسوں کو کھا جاتی ہے۔ آنسو صاف کریں اور خُود کو نارمل کرکے میرے سوالوں کا جواب دیں۔‘‘ یاسر نے پانی کا گلاس آگے بڑھایا۔

کچھ دیر سوال وجواب کا سلسلہ چلا۔ ساتھ ساتھ وہ نوٹ بُک میں کچھ لکھتا بھی جا رہا تھا۔ آخر میں ہاتھ سے قلم رکھ کر بولا۔ مَیں آپ کا پورا کیس سمجھ گیا ہوں۔ مجھے پوری اُمید ہے کہ یہ کیس ہم جیت لیں گے۔ ان شا اللہ۔ میرے سیکریٹری نے فیس کے بارے میں تو بتا دیا ہوگا کہ مَیں ایڈوانس فیس لیتا ہوں۔‘‘

دونوں ماں بیٹی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کچھ توقف کے بعد اماں تھوک نگلتے ہوئے بولیں۔ ’’بیٹا! اتنے پیسے تو ابھی ہمارے پاس نہیں ہیں، لیکن بہت جلد ہم باقی پیسے بھی ادا کردیں گے۔‘‘ انہوں نے کچھ مُڑے تُڑے نوٹ اُس کی میز پر رکھے۔ اُن کے حالات کا اندازہ اُن کے حلیے سے ہو رہا تھا۔ کچھ سوچ کر وکیل نے کہا۔’’ٹھیک ہے، یہ آپ باہر جمع کروا دیں۔ مَیں کل ہی سےاس کیس پر کام شروع کرتا ہوں۔‘‘

ثمن کوعدالت کے چکرلگاتے کئی دن گزرتے گئے تھے۔ اس دوران اُسے کئی مرتبہ وکیل صاحب کے دفترجانا پڑا۔ اکثر فون پر بھی بات ہوتی۔ وہ اُسے بتاتا کہ کیا کیا اور کیسے سوال پوچھے جاسکتے ہیں، جرح کا جواب کس طرح دینا ہے۔ اِس عرصے میں ایڈووکیٹ یاسرحسن کو ثمن کی سادگی اور اُس کے کردار کا اچھی طرح اندازہ ہو گیا تھا۔ وہ شہر کا مصروف وکیل تھا۔ اُس کے پاس سیکڑوں مقدمات آتے۔ مگر وہ ثمن کےکیس کوخصوصی توجہ دے کر ترجیحی بنیاد پر کام کررہا تھا۔ آخرکار، طویل اور تھکا دینے والے انتظار کے بعد فیصلہ ثمن کے حق میں ہوگیا۔

فیصلے کےبعد وہ یاسر کے دفتر آئی اور نم آنکھوں کے ساتھ بولی۔ ’’وکیل صاحب! مَیں آپ کی بہت شُکرگزار ہوں۔ میں آپ کا یہ احسان زندگی بھرنہیں بھول سکتی۔ آپ نے مجھے میرا حق دلوا دیا۔ وہ بھی اتنی کم فیس ادا کرنے کے باوجود۔ لیکن جیسے ہی میرے اکاؤنٹ میں پیسے آئیں گے، مَیں آپ کی بقیہ فیس ادا کردوں گی۔ اِن شاءاللہ۔‘‘یاسر مُسکرا دیا، ہمیشہ سنجیدہ رہنے والا یاسر کُھل کر مُسکراتے ہوئے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ ’’اِس میں احسان والی کوئی بات نہیں۔ 

یہ میرا پیشہ ہے،مگریہ بات سچ ہے کہ میری فیس ابھی باقی ہے اور وہ مَیں پیسوں کی صُورت میں نہیں لوں گا۔‘‘ثمن نے چونک کر پلکیں اُٹھائیں۔اُس کی آنکھوں میں وحشت کی پرچھائیں دیکھ کر یاسر نے سنجیدگی سے کہا۔ ’’ارے آپ تو پریشان ہو گئیں!‘‘ اُس نے اپنی عینک اتار کر میز پر رکھی اور ثمن کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔ ’’میری فیس روپوں میں ادا نہیں ہوگی۔ مَیں چاہتا ہوں، آپ میری زندگی کی ساتھی بن جائیں اور اِس کےلیے مَیں آپ کی والدہ سے درخواست کروں گاکہ مجھے اپنی فرزندی میں لےلیں۔ 

بس آپ یہ بتائیں کہ اپنے گھر والوں کو آپ کے گھر کب بھیجوں؟‘‘کمرے میں مکمل خاموشی چھا گئی تھی۔ ثمن کا دل بُری طرح لرزرہا تھا۔ اُس کی آنکھوں کے کٹورے کسی بھی دمَ چھلکنے کو تیار تھے۔ ’’آپ… آپ مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں؟ مگر مَیں تو بیوہ ہوں‘‘ ’’جی۔ مجھے آپ کے ماضی پر کوئی اعتراض نہیں۔ مَیں نے پورے کیس کے دوران آپ کو بہت اچھی طرح پرکھا ہے۔ آپ کے اندر وہ تمام خُوبیاں موجود ہیں، جو میری زندگی کی ہم سفر میں ہونی چاہئیں۔‘‘

ثمن کی امّاں تو وفورِ جذبات سے گنگ ہو گئی تھیں۔ اُنہوں نے روتے ہوئے وکیل صاحب کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا۔ ’’اللہ تمہیں خوش رکھے بیٹا۔ واقعی، اللہ کے گھر دیر ہے، اندھیر نہیں۔ میری بچی کو اللہ نے اُس کے صبر کا کتنا اچھا پھل دیا ہے۔‘‘ثمن نےسوچنے کا وقت مانگا تھا۔ 

اُس کے دل میں خوف بھی تھا اور ایک اطمینان بھی کہ شاید تقدیر اُسے پھر ایک موقع دے رہی ہے، لیکن آخرکار وہ راضی ہوگئی۔ مگر… یاسر کے گھر میں اِس خبر نے گویا طوفان برپا کردیا تھا۔’’ایک بیوہ سے شادی؟؟ وہ بھی سُسرال سے نکالی ہوئی۔ نہ جانے کیسے لچھن ہوں گے۔ دماغ خراب ہوگیا ہے تمھارا؟‘‘ اس کی امّی اور بہن نے صاف انکار کردیا تھا۔ اُنہوں نے یاسر کے لیے کئی لڑکیاں دیکھ رکھی تھیں۔ لیکن یاسر بھی بضد تھا کہ ’’امّی! ثمن بہت اچھی لڑکی ہے۔ بےچاری حالات کی ستائی ہوئی مظلوم لڑکی ہے۔

اُسے سہارے کی ضرورت ہے۔‘‘ ’’مظلوم لڑکی؟ ارے وہ تو منحوس عورت ہے، جو اپنے میاں کے لیے سبز قدم ثابت ہوئی اوراب میرے بیٹے کو اپنی معصوم ادائوں سے پھانسنا چاہتی ہے۔ مَیں ہرگز اُس کو بہو نہیں بناؤں گی۔‘‘ ’’امّی! آپ اُس سے ایک مرتبہ مل تو لیں۔ وہ اور اس کی امّی آپ کو یقیناً پسند آئیں گی۔‘‘ یاسر ماں کو بہت دھیرج سے سمجھائے جا رہا تھا۔ ’’دیکھو یاسر! اُس کو سہارا دینے والے بہت مل جائیں گے۔ مَیں اپنے گھر میں ایسی بدنصیب عورت کو برداشت نہیں کرسکتی۔

میرا ہیرے جیسا بیٹا، وہ بھی کنوارا! مَیں تو کوئی شہزادی، خاندانی لڑکی لائوں گی اپنے شہزادے کے لیے۔‘‘ ’’اگر ثمن نہیں، تو پھر کوئی بھی نہیں۔ مَیں ثمن کے علاوہ کسی سے شادی نہیں کروں گا۔‘‘ یاسر نے بالآخر اپنا فیصلہ سُنا دیا۔ تو ابّو نے کہا کہ ’’مِل لینے میں تو کوئی حرج نہیں۔‘‘ مگر امّی نہ مانیں۔

بہرکیف، ابو اور ناہید (یاسر کی چھوٹی بہن) دونوں ثمن کے گھر گئے۔ ملاقات میں ابّو نے اُس سے کافی سوالات کیے اور جب مطمئن ہوگئے، تو اُنہوں نے یاسر کو ثمن نے شادی کی اجازت دے دی۔ ناہید تو ثمن کو دیکھتے ہی فدا ہوگئی تھی، البتہ امّی بالکل نہیں مانیں۔ ویسے بھی یاسر کا ارادہ سادگی سے شادی کرنے ہی کا تھا، اِس لیے اگلے ہی ہفتےکورٹ میرج ہوئی اور ثمن، یاسر کی دلہن بن گئی۔ 

ذکیہ بیگم (یاسر کی امّی) ہنوزبیٹے سے سخت ناراض تھیں۔ ’’ایک بیوہ سےشادی؟ یاسر، تم نےیہ کیا کر ڈالا!‘‘یاسر نےآزردگی کےساتھ ماں کو پھر سمجھایا۔ ’’امّی! اب اُس کے ماضی کا ذکر چھوڑ دیں۔ آپ یقین کیجیے، ثمن سےآپ کو کبھی کوئی شکایت نہیں ہوگی۔‘‘مگر ذکیہ بیگم کا دل بھی پتھر کی طرح سخت تھا۔ وہ گھر میں ثمن کا وجود برداشت ہی نہ کر پاتیں، ہر وقت طعنے تشنے دیتیں۔ جواباً ثمن بس خاموش رہتی۔ 

وہ جانتی تھی کہ یہ وقتی نفرت ہے۔ اُس کےاچھےرویّےسےکچھ عرصے بعد اُن کا دل خودبخود صاف ہو جائے گا۔ البتہ ناہید اپنی بھابھی سے بہت محبّت کرنے لگی تھی۔ ’’بھابھی! آپ پریشان نہ ہوا کریں۔ امّی کا غصّہ جلدہی پیارمیں بدل جائےگا۔‘‘ ثمن دھیرے سے مُسکرا دیتی۔ ’’اللہ کرے، ایسا ہی ہو۔‘‘

کچھ ماہ یوں ہی گزر گئے۔ زندگی جیسے آہستہ آہستہ معمول پر آرہی تھی۔ ناہید کے لیے ایک مناسب رشتہ آیا۔ ولید،خوش حال گھرانے کا پڑھا لکھا، خُوب رُو لڑکا تھا۔ سو، دونوں خاندانوں کی رضامندی سے رشتہ طے پا گیا۔ شادی کی تیاریاں شروع ہوئیں، تو ذکیہ بیگم نے ثمن کو ناہید کے کسی بھی کام میں ہاتھ ڈالنےسے منع کردیا۔ ’’خبردار! میری بچّی کی خوشیوں پر تمہارا منحوس سایہ بھی نہ پڑنے پائے۔

یہ مبارک موقع ہے، تم دُور ہی رہنا۔ ’’لیکن امّی! الحمدُللہ مَیں سہاگن ہوں۔‘‘ ’’ہونہہ… زبردستی کی سہاگن… پتا نہیں کیسے میرے ہیرے جیسے بیٹے کو پھانس لیا۔‘‘ ہمیشہ صبرکرنے والی ثمن اُس دن بےحد آزردہ ہو گئی۔ وہ زاروقطار روتے ہوئے سجدے میں گرگئی تھی۔ لیکن اِس واقعے کے بعد وہ بہت چُپ سی ہوگئی۔ بس اپنے کام سے کام رکھتی۔

اُس نے شادی کے سب کاموں سے خُود کو بالکل الگ کر لیا تھا۔ ناہید کے کپڑے، زیور اور ہر ہر چیز ذکیہ بیگم نے خُود ہی خریدی۔ یاسر نے بھی انتظامات کرنے میں دن رات ایک کردیے تھے، لیکن ثمن بس باورچی خانے ہی تک محدود رہی۔ شادی بہت دھوم دھام سے ہوئی۔ ذکیہ بیگم کی خوشی دیدنی تھی۔ ثمن بھی بہت خوش تھی کہ اُس کی پیاری نند، جو اُسے بہت عزیز رکھتی تھی، اُس کی اتنی اچھی جگہ شادی ہورہی ہے۔ یاسربھی مطمئن تھا کہ گھر کی مکدّر فضا آخرکار قدرے خوش گوار ہوگئی تھی۔ امّی کا مُوڈ بھی کچھ بہتر تھا۔

شادی کو دو ہفتے ہو چلے تھے۔ روزانہ دعوتوں کا سلسلہ جاری تھا کہ ایک شام دروازہ زور سے کُھلا۔ یاسر کے ابّو بری طرح چیختے ہوئے اندر آئے اور آتے ہی صوفے پر ڈھیر ہوگئے۔ ’’ذکیہ بیگم! غضب ہوگیا، بہت افسوس ناک خبر ہے۔ ولید بیٹے کا بہت خطرناک ایکسیڈنٹ ہوا ہے… اور وہ… وہیں ختم ہوگیا، ہائے! ولید چلا گیا۔ ہائے… ہماری بچّی بیوہ ہوگئی ذکیہ بیگم۔‘‘

سنڈے میگزین سے مزید