ہمارا ماننا ہے کہ صرف موت کو برحق ماننا ہی خدائی نظام چلانے کے لیے کافی نہیں۔ جو قومیں فقط موت ہی کو اٹل مان کر اپنی منصوبہ بندی کرتی ہیں اور موت کی بجائے ٹیکس کی ادائی سے ڈرتی ہیں، وہ وقت سے پہلے ہی تباہ و برباد ہوجاتی ہیں، جب کہ جن ممالک کے شہری موت اور ٹیکس دونوں ہی کو برحق سمجھتے ہیں اور جہاں موت کا خوف اور ٹیکس ادائی کے فوائد پر یقینِ محکم ہوتا ہے، وہاں ٹیکسز کی ادائی لوگوں کی سرشت میں شامل ہو جاتی ہے۔
پھر ایسے ممالک اور اقوام ہمیشہ ترقّی کی راہ پر گام زن رہتی ہیں اور دُنیا کی کوئی طاقت اُن کا راستہ نہیں روک سکتی۔ ٹیکسز ادا کرنے والی اقوام کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اُنہیں اپنے ہر کام میں خدا کی تائید حاصل ہے۔ موت کی مانند ٹیکس کی ادائی پر یقین رکھنے والے لوگ مسرور رہتے اورخوش حالی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔
ٹیکسزکی ادائی سے انحراف کا تصوّر تک اُن کے وہم و گمان میں نہیں ہوتا اوریہ ٹیکسز ہی ان کی کام یابیوں کی کُنجی ٹھہرتے ہیں۔ ایسی کنجی، جو اُنہیں بُرے سے بُرے دِنوں کو بھی نہایت خوش اسلوبی سے گزارنے میں مدد دیتی ہے، جب کہ ہماری جیسی اقوام، جو ٹیکسزکی عدم ادائی کو کوئی جُرم تصور نہیں کرتیں، اُنہیں حیرت سے تکتی ہی رہ جاتی ہیں۔ خُود کویہ کہہ کوطفل تسلیاں دیتی ہیں کہ یہ سارا علم تو ہمارے دینِ اسلام نے ہمیں عطا کیا تھا، جسے غیروں نے ہم سے چھین لیا۔
حالاں کہ تعجب اس بات پر ہونا چاہیے کہ اگر ہمیں معلوم ہے کہ ہمارا علم کس نے چوری کیا ہے، تو پھر اُس طرزِعمل کو اپنا کر اُسے واپس کیوں نہیں لیا جاتا؟ دانش وبینش کی ملکیت (Intellectual Property) واپس حاصل کرنے کی کوششیں کیوں نہیں کی جاتیں؟ اگر وہ واقعی ہمارا علم ہے، تو ہمیں کم ازکم اس کا کچھ حصّہ تو واپس مل ہی سکتا ہے۔ حد تو یہ ہے، ہم ’’منگتے‘‘ ہونے کے باوجود بھی خُود کو ترقّی یافتہ اقوام سے بہتر سمجھتے ہیں اوردرحقیقت یہی سب سے بڑا المیہ ہے۔
جرمنی کا مالی بُحران اور ذمّےدار شہری
آج سے تقریباً تیس سال قبل جب مشرقی و مغربی جرمنی کا الحاق ہوا، توجرمنی شدید مالی بُحران کا شکار تھا۔ اس موقعے پر جرمن چانسلر نے برلن میں منعقدہ جلسے میں اپنی پہلی تقریر کے دوران کہا کہ آئندہ 27برسوں میں مغربی جرمنی اپنی محفوظ دولت (Reserve Wealth) کا 25فی صدحصّہ مشرقی جرمنی میں خرچ کرکے اُسے مغربی جرمنی کے برابر لاکھڑا کرے گا۔
دِل چسپ اَمر یہ ہے کہ ہم بھی دیوارِ برلن کے انہدام کا منظر دیکھنے اُس جلسے میں شریک تھے۔ پھر جب جرمنی کی چانسلر اینگلا مِرکل بنیں، تو وہاں کے امیر ترین کاروباری افراد نے ایک انوکھی تحریک چلائی۔ اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ ’’حکومت ہم سے زیادہ ٹیکس لے، کیوں کہ ہم سارے ٹیکسز دینے کے باوجود بھی مزید امیر ہوتے جا رہے ہیں۔
حکومت ہم سے مزید پیسے لے تاکہ مُلک کو مالی مشکلات سے نکالا جاسکے۔‘‘ یہاں تک کہ جرمن حکومت نےجب اُن کے اس مطالبے پر کان نہ دھرا، تو اُن امیر کاروباری افراد نے دارالحکومت، برلن میں احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا اور اس احتجاج میں ہزاروں کاروباری افراد شریک ہوئے۔
یہ افراد جلوس کی صُورت برلن آئے اور فرضی کرنسی نوٹوں کو نذرِآتش کر کے شدید احتجاج کیا کہ حکومت اُن کا مطالبہ کیوں نہیں مان رہی۔ یہ یورپ کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا انوکھا احتجاج تھا اور اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ وہ اقوام کبھی زوال پذیر نہیں ہو سکتیں، جو اپنی حکومتوں کا خیال اور اُن پر اعتماد اور یقین رکھتی ہیں۔
نیدرلینڈز: ترقّی اور ڈیجیٹلائزیشن کی منفرد مثال
نیدرلینڈز (ہالینڈ) دُنیا کے اُن چند ممالک میں شامل ہے، جہاں ٹیکس کی شرح خاصی بلند ہے اورساتھ ہی یہ دُنیا کے پہلے پانچ خوش حال ترین ممالک میں بھی شامل ہے۔ نیز، یہ غالباً دُنیا کا واحد مُلک ہے، جو مکمل طور پر ڈیجیٹلائزڈ ہیں۔ ہالینڈ میں کسی بھی فرد کو سرکاری کاموں یا بینکنگ سے متعلق امور کے سلسلے میں گھر سے باہر نہیں نکلنا پڑتا، یعنی اُن کے تمام کام آن لائن ہی پایۂ تکمیل کو پہنچتے ہیں۔ مثال کے طور پر بچّے کے پیدا ہوتے ہی اُسے ایک ڈیجیٹل کوڈ الاٹ کر دیا جاتا ہے، جو تاحیات برقرار رہتا ہے۔
نیدر لینڈز کے اس مینجمینٹ سسٹم سے پورا مغربی یورپ ہی استفادہ کرتا ہے۔ اِس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ انگلینڈ، جرمنی، فرانس اور بیلجیم سمیت دیگر اسکینڈے نیوین ممالک کی حکومتیں گزشتہ 25،30 برس سے اپنے شہریوں کو ہالینڈ تربیتی کورسز کے لیے بھیج رہی ہیں، جب کہ انگلینڈ تو اپنا سارا نظام ہی ڈچ مینجمینٹ کے اصولوں ہی پراستوار کررہا ہے۔
مزید برآں، برطانوی باشندے اپنے بوسیدہ نظام کو ترک کر کے ایک ماڈرن اور اسمارٹ نظام بنانے کے لیے نیدرلینڈز کے ماڈل کا انتخاب کر چُکے ہیں۔ اس کے برعکس ہم ہیں کہ دن رات اپنے مُلک کے ذرائع ابلاغ کے ذریعے برطانیہ کے نظامِ حکومت وانصاف کا راگ الاپ رہے ہوتے ہیں، جب کہ برطانیہ کو بھی یہ پتا چل چُکا ہے کہ وہ ’’یورپ کا بیمار مُلک‘‘ ہےاوراگر وہ اسی فرسودہ نظام پر چلتا رہا، تو آئندہ چند برسوں میں تباہی اُس کا مقدّر ہوگی۔
واضح رہے، نیدر لینڈز نےجس شعبۂ زندگی میں بھی بہتری کی ٹھانی، اُسے بامِ عروج تک پہنچا دیا اور ’’اجارہ داری‘‘ حاصل کر لی۔ بڑے بڑے ممالک وہ کام نہ کرسکے، جو اس عام سے مُلک نے کر دکھائے۔ یاد رہے، دُنیا میں ہر قسم کی خوراک کے بیجوں کے 70 سے 75 فی صد مالکانہ حقوق نیدرلینڈز سے تعلق رکھنے والی کمپنیز کے پاس ہیں۔
اسی طرح اسلحہ سازی میں بھی یہ مُلک دُنیا میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ اس کےعلاوہ بھی بےشمار ایسے کاروبار ہیں، جن پر اِس چھوٹی سی قوم کا مکمل کنٹرول ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے، آخر ایک چھوٹے سے مُلک نے، جس کی کُل آبادی دو کروڑ بھی نہیں، یہ کمال کیسے کر دکھایا۔
سیم زدہ، پوپلی زمین کے حامل مُلک، نیدرلینڈز کی سالانہ برآمدات935 بلین ڈالرز سے تجاوز کر رہی ہے۔ اور آئندہ برسوں میں ایک ٹریلین ڈالرز کی حد عبور کرجائیں گی۔ یاد رہے، دُنیا میں برآمدات کے اعتبار سے چین، امریکا اور جرمنی کے بعد نیدر لینڈز کا نمبر آتا ہے، جب کہ جاپان، فرانس اور برطانیہ بھی اس سے پیچھے ہیں۔
نیدرلینڈز کی اس شان دار کام یابی کی صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے، اس کا ٹیکس کا نظام، جس کا سلوگن اتنا شان دار اور سادہ ہے کہ جو لوگوں کے دِلوں میں خوف کی بجائےاحساسِ ذمّے داری پیدا کرتا ہے اور وہ نعرہ ہے’’ٹیکس میں چُھوٹ ہم نہیں دے سکتے، لیکن آسانی ضرور پیدا کر سکتے ہیں۔‘‘
پانی سے جنگ: بقا کی ضامن
نیدرلینڈز کے ضمن میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ یہ مُلک اس کُرّۂ ارض پر ایک انتہائی خطرناک جگہ پر واقع ہے۔ آج سے صدیوں قبل انسانوں نے اس خطّے میں بسنا شروع کیا اور تب سے اب تک ہمہ وقت حالتِ جنگ میں ہیں، کیوں کہ اِن کا ’’دشمن‘‘ اُنہیں ہر وقت صفحۂ ہستی سے مٹانے کے درپے رہتا ہے، مگر یہ قوم ایسی سخت جان واقع ہوئی ہے کہ ہار مانتی ہے اور نہ ہی اس خطّۂ زمین سے دست بردار ہوتی ہے۔
ڈچ قوم کا ازلی دشمن ’’پانی‘‘ ہے۔ اس کے سامنے تقریباً 400 کلومیٹر طویل بپھرا ہوا ساحل موجود ہے، جب کہ اس کے عقب سے جرمنی کے تین بڑے دریا، کئی ندیاں اور نالے اس پر حملہ آور ہیں۔ نیز، ہالینڈ کی تقریباً 80فی صد زمین اور آبادی اوسطاً تین سے چار میٹر سطحِ سمندر سےنیچے ہے۔ اس کے پاس خُشکی کم اور پانی زیادہ ہے۔
اس قوم نے ’’موت کے خوف‘‘ کو اپنی طاقت اور پانی کے ساتھ جنگ کا منصوبہ بنا رکھا ہے اور اس منصوبہ بندی کے تحت پانی کی طاقت کو پورے مُلک میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ نیز، ہزاروں چھوٹے، بڑے ڈیمز بنا کر سمندر اور جرمنی کی طرف سے آنے والے بپھرے ہوئے دریاؤں اور ندی، نالوں کو نکیل ڈال دی گئی ہے۔
شہر اور دیہات ڈیمز کی پناہوں میں محفوظ کر دیے ہیں اور اِن ڈیمز کی ایسی اعلیٰ نقشہ بندی کی گئی ہے کہ کسی اجنبی کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کسی ڈیم پر کھڑایا اُس پر گاڑی چلا رہا ہے اور یہ سب کچھ ممکن اِس لیے ہوا کہ موت کے خوف سے ڈچ قوم نے ٹیکس دینے کی عادت بنا لی اور اس کے رہنماؤں نے بھی قوم کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔ یہ ایک ایسا مُلک ہے، جہاں قاتل، تو چار سال قید کاٹ کررِہا ہو سکتا ہے، لیکن ٹیکس چور کی بخشش نہیں ہو سکتی۔
ایک المیہ اور حل…
یاد رہے، گزشتہ ماہ کے آخر میں آئی ایم ایف نے پاکستان میں ٹیکس چوری سے قومی خزانے کو بڑے پیمانے پر نقصان کی نشان دہی کی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے مطابق، کرپشن، ٹیکس چوری، حقیقی آمدن چُھپانے کا کلچر اور پیچیدہ قوانین کم ٹیکس وصولی کی بڑی وجوہ ہیں، جب کہ اس کے ساتھ ہی آئی ایم ایف نے رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کی تعداد کم از کم ڈیڑھ کروڑ کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
نیز، جعلی رسیدوں اور ری فنڈز پر قابو پانے اور مختلف شعبہ جات کو حاصل ٹیکس چُھوٹ یا مراعات ختم کرنے کی سفارش بھی کی ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستانی ٹیکس نظام کی کم زوریوں کو بے نقاب کرتے ہوئے نشان دہی کی کہ مُلک میں رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کی اصل تعداد سرکاری تخمینوں سے انتہائی کم ہیں، جو 50لاکھ تک محدود ہیں۔
حالیہ 59لاکھ ٹیکس گوشواروں میں سے43فی صد نے صفر آمدن ظاہر کی۔ یہی وجہ ہے گزشتہ 5سال میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 10فی صد تک محدود رہی۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے مطابق، ٹیکس چوری کے لیے حقیقی آمدن چُھپائی جا رہی ہے یا پھر غیر حقیقی فائلرز سسٹم میں شامل ہیں۔ آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی بتایا کہ ٹیکس چوری کے باعث بجٹ خسارہ 3.4ٹریلین روپے یعنی جی ڈی پی کا 3.9 فی صد ہے اور رعایتی ایس آر اوز کے بے تحاشا اجرا نے ٹیکس نظام مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
علاوہ ازیں، غیر رسمی معیشت کے پھیلاؤ نے بھی قومی خزانے کو شدید نقصان پہنچایا۔ مزید برآں، ایف بی آر میں مؤثر احتساب کا فقدان ہے اور بد عنوانی کے راستے کُھلے ہوئے ہیں اور کرپشن کے مقدّمات میں قانونی کارروائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ آئی ایم ایف نے زور دیا کہ مختلف شعبوں کو ملنے والی ٹیکس چُھوٹ اور رعایتیں فوری ختم کی جائیں۔
آئی ایم ایف کی مذکورہ بالا رپورٹ کی روشنی میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ہمارے مُلک میں ٹیکس چوروں کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے، کیوں کہ یہاں جو بھی حُکم راں آتا ہے، چوری ہی کے لیےآتا ہے۔ اسی وجہ سے یہاں ہزاروں آفات آ چُکی ہیں اور ہزاروں آنے والی ہیں، جو نوشتۂ دیوار ہیں۔
یاد رہے، یہ قدرتی آفات نہیں ہیں، بلکہ ہم نے خُود ہی اِنہیں اپنے اُوپر نازل کیا ہے۔ مثال کے طور پر سیلاب ہماری اپنی کوتاہیوں سے آتا ہے، لیکن ہم ذمّے وار قدرت کو ٹھہراتے ہیں۔ سو، ان آفات سے چُھٹکارا پانے کے لیے ہمیں نہایت دیانت داری سے اپنے مُلک میں ٹیکس کا نظام نافذ کرنا ہوگا،تب ہی آہستہ آہستہ ہمیں اِن سے نجات مل سکتی ہے۔
واضح رہے، ہماری سرزمین کو تو ایسا کوئی چیلنج درپیش ہی نہیں، جس قسم کے مسائل کا سامنا نیدرلینڈز کررہا ہے۔ اگر ہم دُنیا کی ناکام ترین اقوام کی صف میں شامل ہونے سے بچنا چاہتے ہیں، تو پھر ہمیں فوری طور پر اپنی ترجیحات تبدیل اور ٹیکس چوری کا رجحان ترک کرنا ہوگا۔
آج یہ بات قطعاً باطل ثابت ہو چُکی ہے کہ ٹیکس دینے سے منہگائی میں اضافہ ہوتا ہے، بلکہ ٹیکس دینے سے زیادہ سہولتیں، آسائشیں اور آسانیاں ملتی ہیں۔ نیز، اشیاء کی قیمتیں بھی کم ہوجاتی ہیں اور معاشرہ بھی خُوب ترقّی کرتا ہے۔ یہ سب دراصل ٹیکس کی ادائی ہی کے ثمرات ہیں، جو ہم بدنصیبوں کے نصیب سے ہزاروں میل دُور دکھائی دیتے ہیں۔
موت تو ایک نہ ایک دن ضرور آنی ہے، بہتر ہے کہ ٹیکس دے کر مریں، تاکہ اگلی نسلوں پر آفات نہ آئیں۔ یقین کریں، اگر ہم ٹیکسز کی ادائی کے بغیر یوں ہی مرتے رہے، تو آئندہ نسلوں کی بقا ناممکن ہو جائے گی۔
ناقابلِ اشاعت نگارشات اور ان کے تخلیق کا ربرائے صفحہ ’’متفرق‘‘
٭عمیرہ احمد، پاکستان میں بچّہ مزدوری (مبشرہ خالد، کراچی) ٭ہردل عزیزی (عدنان بن افضل، سرگودھا) ٭اقبال کا فلسفۂ خودی (روبینہ قریشی) ٭ذیابطیس (غلام مصطفٰی مغل) ٭بابا گرونانک کا 556؍ واں جنم دن، اقبال اور پاکستان (پروفیسر حکیم سیّد عمران فیاض)٭اقبال کا عشقِ رسولؐ (جاوید سیہوانی) ٭وائلڈ لائف قوانین، توتوں کے شائقین (مرزا محمّد رمضان ) ٭تعلیم برائے فروخت (عمران رفیع) ٭ اجتماعِ عام اور حسین یادیں (نورین خان، اسلام آباد ) ٭جہانِ شاہین ( تحریم فاطمہ ) ٭قلم سے انقلاب (صبا احمد، کراچی) ٭ ایک گویّا (خواجہ عادل شاہ، موسمیات، کراچی) ٭خواتین پر تشدد، کتب بینی میں پرنٹ میڈیا کا کردار (بشیر سدوزئی) ٭شانِ صدیق اکبر ؓ (اکرام الحق چوہدری) ٭ ناول ’’آجڑی‘‘ کا تعارف (نازیہ آصف) ٭مدارس، ریاست اور بدلتے چیلنجز (محمد عُمر قاسمی) ٭ جدّی پُشتی غلام (محمّد فیصل شہزاد) ٭ موسم (شری مرلی چند گھوگھلیہ، شکارپور) ٭ پراجیکٹ کی تعمیر میں تاخیر (صغیر علی صدیقی، کراچی)۔