اسلام آباد (رانا مسعود حسین/نیوز ایجنسیز) سپریم کورٹ نے لاپتا افراد کمیشن سے 10روز میں تمام مقدمات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے نیا بااختیار عدالتی کمیشن بنانے کی استدعا مسترد اور لاپتا افراد کیس کی سماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی کر دی۔
دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ریاست کو اپنا مائنڈ سیٹ بدلنا ہوگا، معاملے کو سیاسی بنایا جارہا ہے، کیا ہم کسی کیلئے ریڈ کارپٹ بچھائیں گے، کسی کو خدشات ہیں تو ایف آئی آر درج کرائے، ہمارے پاس فوج کھڑی ہے کہ کسی کو تحفظ دیں، عدالت کو سیاسی اکھاڑا نہ بنائیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ شیخ رشید اس معاملے میں کیوں نہ آئے، ذاتی مسئلے نہیں سنیں گے، لاپتا افراد کمیشن کے لوگ صرف تنخواہیں لے رہے ہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کمیشن کا اجلاس کتنی بار ہوا؟جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جو اپنے لئے بات نہیں کرسکتے وہ کسی کے لئے کیا کریں گے۔
ڈیفنس آف ہیومین رائٹس کی سربراہ آمنہ مسعود نے کہا کہ آپ میرے شوہر کے بارے میں آرمی چیف سے پوچھ لیں، جس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ جس کا نام لیا ہوسکتا ہے وہ اس وقت میجر ہوں، کیا ہم حکومت سے پوچھ لیں؟
نمائندہ جنگ کے مطابق سپریم کورٹ نے ’’لاپتہ افراد کی بازیابی‘‘ سے متعلق دائرآئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران لاپتا افراد کی بازیابی کے کمیشن کی جانب سے پروڈکشن آرڈرز پر عملدرآمد کے حوالے سے دو ہفتوں کے اندر اندر وفاقی حکومت سے جامع جواب طلب کیا۔
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے جاری ہونے والے پروڈکشن آرڈرز پر ایک ایک فرد کے بارے میں تفصیلی رپورٹ جمع کرائیں اور بتائیں کہ یہ افراد کس کس دور حکومت میں غائب ہوئے اور ان کی بازیابی کے کمیشن کے احکامات پر تاحال عملدرآمد کیوں نہیں ہوا ہے؟
عدالت نے قرار دیا ہے کہ جو لاپتہ افراد بازیاب ہوکر واپس آگئے ہیں اس عدالت میں ان کا معاملہ نہیں دیکھا جائے گا، تاہم وہ لوگ متعلقہ اداروں یا حکام کے خلاف مقدمات قائم کرنے اور ہرجانے کا دعویٰ کرنے میں آزاد ہیں، عدالت نے لاپتا افراد کی بازیابی کے کمیشن کے مکمل بجٹ اور اس کے اراکین /ملازمین کی تنخواہوں سے متعلق مکمل تفصیلات طلب کرلی ہیں۔
عدالت نے فیصل صدیقی ایڈوکیٹ کو اس مقدمہ میں عدالت کی معاونت کیلئے امائیکس کیورائے (عدالت کا دوست)مقرر کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ان کے سفری اور رہائشی اخراجات حکومت کے ذمہ ہوں گے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بلوچستان کے لاپتا افراد کے لواحقین پر اسلام آباد پولیس کے تشدد پر سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ پرامن احتجاج ہر شہری کا قانونی حق ہے، پر امن مظاہرین پر ریاست کو اس طرح کی کارروائی کا کوئی حق نہیں، جب تک احتجاج کرنے والے تشدد پر نہ اتریں ان کے احتجاج کو طاقت سے نہ کچلا جائے۔
عدالت نے بلوچستان کے لاپتہ طلباء کے بارے میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر وفاقی حکومت کی اپیلیں واپس لینے کی بنا پر خارج کردیں،ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ فیصلے پر عمل درآمد ہوچکا ہے اور کمیشن نے اپنی رپورٹ جمع کرادی ہے۔
دوران سماعت درخواست گزاروں نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے قائم کمیشن کی کارکردگی پر عدم اطمنان کا اظہار کیا ہے جبکہ لاپتہ افراد کے کمیشن کے رجسٹرار نے رپورٹ پیش کی ہے کہ کمیشن نے اب تک لاپتہ افراد سے متعلق سات ہزار سے زائد مقدمات نمٹائے ہیں۔
چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ لاپتہ افراد کا کمیشن وفاقی حکومت کا ایشو ہے اگر حکومت چاہے تو کمیشن کی ازسر نو تشکیل کرسکتی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ لاپتہ افراد کے بارے میں سچائی کو سامنے آنا چاہئے ،ریاست کو بھی اپنی ذہنیت تبدیل کرنا ہوگی، ہمیں اس مسئلے کا حل ڈھونڈنا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تو درخواست گزار اعتزاز احسن کی جانب سے شعیب شاہین ایدوکیٹ پیش ہوئے اور لاپتہ افراد سے متعلق ماضی کے عدالتی فیصلوں کے حوالے دیئے۔
انہوں نے فیض آباد دھرنا کیس کا حوالہ بھی دیا تو چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ فیض آباد دھرنا کیس سے لاپتا افراد سے کا کیا تعلق ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ لاپتا افراد کا براہ راست ذکر نہیں لیکن ایجنسیوں کے آئینی کردار کا ذکر موجود ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں قانون کے مطابق احتجاج کے حق کی توثیق کی گئی ہے، کچھ دن پہلے مظاہرین کو روکا گیا تھا اس حوالے سے بتائیں۔
جس پر انہوں نے بتایا کہ عدالت نے سڑکیں بند کرنے اور املاک کو نقصان پہنچانے پر کارروائی کرنے کا کہا تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ حیرت ہے کہ آپ فیض آباد دھرنا کیس کا حوالہ دے رہے ہیں، جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ میں تو ہمیشہ سے ہی اس فیصلے کے ساتھ رہا ہوں، اگر ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرتا تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔
انہوں نے صحافی مطیع اللّٰہ جان کے اغوا سے متعلق ہائیکورٹ کے فیصلے کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر اس وقت حکومت اور عدلیہ مداخلت نہ کرتی تو انہیں بھی نہ چھوڑا جاتا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ غلط بیانی نہ کریں، واقعے کی ویڈیو ریکارڈنگ منظر عام پر آگئی تھی، یہ وہ کیس تھا جو 2 منٹ میں حل ہوجانا تھا۔
مطیع اللہ جان کو چھڑانے میں اس وقت کی حکومت (پی ٹی آئی ) کا کوئی کردار نہیں تھا، ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ اغوا کرنے والے کون ہیں؟ اس لئے چھوڑا گیا تھا، دوران سماعت ڈیفنس آف ہیومین رائٹس کی سربراہ آمنہ مسعود جنجوعہ نے اپنے شوہر کے غائب ہونے کا معاملہ اٹھایا تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس نے اٹھایا تھا؟ کیا اوپر سے حکم آیا تھا کہ اٹھانا ہے؟
انہوں نے بتایا کہ 2001 سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر بہت سے لوگ اٹھائے گئے ہیں، دوران سماعت شعیب شاہین نے کہا کہ اگر عمران ریاض کو عدالت طلب کرے اور اسے تحفظ دیا جائے تو وہ عدالت میں آکر بیان دینے کیلئے تیار ہے، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج پھر اس معاملے کو سیاسی بنایا جارہا ہے، کیا ہم کسی کے لئے کارپٹ بچھائیں گے؟ اگر کسی کو خدشات ہیں تو ایف آئی آر درج کرائے، ہمارے پاس کوئی فوج کھڑی ہے جو کسی کو تحفظ دیں گے؟