• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاحیات نااہلی، خلاف اسلام، آمر کبھی صادق، کبھی ڈگری کی شرط عائد کرتے رہے، پارلیمنٹ نے مدت نہیں لکھی تو تاحیات کیوں؟ چیف جسٹس

اسلام آباد (رپورٹ :،رانا مسعودحسین) چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی سے متعلق کیس میں ریمارکس دیئے کہ آمر کبھی صادق و امین، کبھی ڈگری کی شرط عائد کرتے رہے، پارلیمنٹ نے مدت نہیں لکھی تو نااہلی تاحیات کیوں؟ دو سال کیوں نہیں کی گئی؟ کسی کو تاحیات نااہل کرنا اسلام کیخلاف ہے، توبہ کا راستہ خدا نے بند نہیں کیا تو عدالت کیسےکرسکتی ہے؟ ایک آمر نے سیاستدانوں کو نا اہل کرنے کا قانون بنوایا، صادق و امین کی شرط اپنے لئے کیوں نہ ڈالی، ایک شخص کی مرضی پر پورا ملک چلے یہ جبر ہے، جنرل ضیا یا انکے وزیر کو امین کا مطلب نہیں معلوم تھا؟ آمروں اور سیاستدانوں کو ایک ساتھ نہیں پرکھا جاسکتا، 5 ججز کی عقل پارلیمنٹ سے زیادہ نہیں ہوسکتی، الیکشن سے متعلق کنفیوژن نہ پھیلائی جائے، ہمیں نااہلی کا مسئلہ حل کرنا ہے، آرٹیکل 62 ون ایف میں نااہلی کی مدت کہاں ہے؟ کوئی منطق ہونی چاہئے، ایسا نہیں کہ موڈ میں ہیں تو تاحیات نا اہل کردیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا 5 سال نااہلی کاقانون آچکا تو تاحیات نااہلی کیسے قائم رہے گی؟ جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کون تعین کرے گا کس کا کردار اچھا کس کا نہیں؟ نااہلی کی مدت کی تشریح پہلے سپریم کورٹ نے کی پھرپارلیمان نے، کیا پارلیمان کی تشریح عدالت سے کم تر ہے؟ عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا سپریم کورٹ کو تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس لینا ہوگا، سیاسی قیادت کو مٹانے والی تشریح سے عدالتوں کوگریزکرنا چاہیے۔ سیاستدانوں کی نااہلی سے متعلق الیکشن ایکٹ چلے گا یا سپریم کورٹ کا فیصلہ؟ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کے کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی۔تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت عوامی نمائندوں کی تاحیات نااہلیت سے متعلق سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں اور الیکشنز(ترمیمی)ایکٹ2023کی عوامی نمائندہ کی عوامی عہدہ سے ناہلیت کی مدت پانچ سال سے زیادہ نہ ہونے سے متعلق آرٹیکل 232 میں واضح تضاد کی بنا پر پیدا ہونے والے ابہام کو دور کرنے سے متعلق مقدمہ کی ساڑھے سات گھنٹوں پر محیط طویل سماعت ہوئی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میںجسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل سات رکنی لاجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس قاضی فائز نے ریما رکس دیے کہ ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ کیا آرٹیکل 62ون ایف کے ڈکلریشن کا اختیار سپریم کورٹ کو بھی حاصل ہے یا نہیں؟۔کیا ڈکلریشن ضابطہ دیوانی اور سپیسفک ریلیف ایکٹ کے مطابق جاری ہوگا ؟،یا سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ براہ راست بھی یہ اختیار استعمال کرسکتی ہے،اگر آئینی عدالتوں کو اختیار حاصل ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ ٹرائل کے بغیر محض مفروضے پر ڈکلریشن کیسے جاری ہوسکتا ہے ؟۔ چیف جسٹس نے کہا تاحیات نااہلی کا فیصلہ عدالت نے آئین و قانون پر نہیں اپنی سوچ کے مطابق دیا، فیصلے لاجک پر ہوتے ہیں موڈ پر نہیں ، تباہی صوابدیدی اختیار سے آئی ہے،کسی کو بھی آزاد نہیں چھوڑا جاسکتا ،یہ نہیں ہوسکتا کہ جیسے چاہے تاحیات نااہل کرے اور جیسے چاہے چھوڑ دے ۔ چیف جسٹس نے کہا سمیع اللہ بلوچ کیس میں سپریم کورٹ نے تاحیات نااہل کردیا اور فیصل ووڈا کیس میں چھوڑ دیا گیا ،دونوں فیصلوں کو کیسے ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے ؟۔چیف جسٹس نے بنیادی حقوق کو آئین میں فوقیت حاصل ہے،الیکشن لڑنا آرٹیکل 17کے تحت بنیاد حق ہے تو 62(1)(f)کے تحت تاحیات نااہلیت کیسے ؟۔ چیف جسٹس نے کہا جو آج نااہل ہے وہ کل اہل بھی ہوسکتا ہے ،اسلام میں تو صراط المستقیم پر آنے کے لیے توبہ کے دروازے ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں،تاحیات نااہلی اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے ۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی پرکہا جاسکتا امین نہیں مگریہ تونہیں کہا جاسکتا کہ ساری زندگی کیلئے انتخابات نہیں لڑسکتے۔جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ فیصل ووڈا کیس نے تو بہت آسان کردیا کہ کوئی بھی سپریم کورٹ آکر کہے کہ مجھے صادق اور آمین قرار دیدیں ۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جو جج دوسروں کے صادق و امین کے ڈکلریشن جاری کرتے ہیں ان کے صادق و امین ہونے کے لیے بھی کوئی ڈکلریشن ہے ۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جب تک شواہد ریکارڈ اور جرح نہ ہو کسی کے خلاف ڈگری جاری نہیں ہوسکتی ۔جسٹس منصور علی شاہ نے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے 62ون ایف کے تحت نااہلیت کی مدت کے تعین پر سوال اٹھایا اور کہا کہ آئین کو ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے ریگولیٹ نہیں کیا جاسکتا ۔عدالتی معاون عزیر بھنڈاری نے دلائل کے دوران تاحیات نااہلی کی حمایت کی اور سمیع اللہ بلوچ کیس کے فیصلے کا مشروط جائزہ لینے کی تجویذ دی۔انہوں نے موقف اختیار کیا کہ ڈکلریشن کو ڈکلریشن کے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہے،سمیع اللہ بلوچ کیس کے فیصلے میں ڈکلریشن کا طریقہ کا وضع نہیں کیا گیا ،یہ عدالت طریقہ کار کی حد تک فیصلے کا ازسر نو جائزہ لے ۔عدالت کے دوسرے معاون فیصل صدیقی نے سمیع اللہ بلوچ کیس کا از سر نو جائزہ لینے پر زور دیا اور کہا کہ یہ فیصلہ واپس لیا جائے گا تو الیکشن ایکٹ کا سیکشن 332جائز قانون ہوگا ،اس فیصلے کی موجود گی میں کاغذات نامزدگی سے متعلق ریٹرننگ افسر کے اختیار ات غیر واضح ہوں گے ۔فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ عدالت کا وہ فیصلہ جس کا ثر آئینی ہوتا ہے وہ سادہ قانون کے ذریعے غیر موئر نہیں کیا جاسکتا،اس نوعیت کے فیصلے کو ختم کرنے کے لیے آئین میں ترمیم لازمی ہے۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا آئین میں ترامیم پارلیمنٹ پر تھوپی گئی ۔ ایک ڈکٹیٹرآیا، دوسرا پھرتیسرا آیا سب کواٹھا کرپھینک دیا ، کچھ لوگوں نے کہا چلوآدھی جمہوریت بھی آمریت سے بہترہے، ترامیم بھی گن پوائنٹ پرآئیں ۔ان کا کہنا تھا کہ یہاں بیٹھے پانچ ججوںکی دانش پارلیمنٹ میں بیٹھے 326منتخب لوگوں سے زیادہ کیسے ہوسکتی ہے؟،آئین کا تقدس اس وقت ہوگا جب ہم تقدس دیں گے، آپ جتنا بھی حقارت سے دیکھیں گے لیکن پارلیمنٹرین ہمارے منتخب نمائدے ہوتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا جب تک کوئی جھوٹا ثابت نہیں ہوتا ہم کیوں فرض کریں وہ جھوٹا ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ صادق اور آمین کی تشریح کیا ہے، اس کی وہ معنی ہے جو اسلام میں ہے۔چیف جسٹس نے کہا جس ڈکٹیٹر نے پارلیمنٹرین کے لیے صادق اور آمین کی شرط رکھی کیا اس نے خود پر اس کا اطلاق کیاتھا ،یہ بات نہیں کہ امین کے لیے جرنل ضیاء اور اس کے وزیر قانون کو انگریزی کا متبادل لفظ نہیں ملا بلکہ یہ ایک مقصد کے لیے شامل کیا گیاتھا،اسلام میں منافق ،کافر سے بڑا مجرم ہے۔

اہم خبریں سے مزید