حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن کیا کہیں کہ آج کے مرد فیشن سے لپٹ کر رہ گئے، فیشن کو اپنا محبوب بنا بیٹھے اس قدر عزیز کر لیا فیشن کو کہ مردانہ وجاہت ختم کرتے فیشن کی رو میں بہہ کر خود کو ڈھیلا اور کاہل کر لیا یا یوں کہیے کہ فیشن مردوں سے چپٹ کر رہ گیا۔ عورت اگر نسل انسانی کو پروان چڑھاتی ہے تو مرد اپنے کنبے کی آبیاری کرتا ہے۔ ایسے حالات میں معاشرہ مردوں کو مضبوط تر، بارعب اور مردانہ وجاہت کا باعمل آدمی دیکھنا چاہتا ہے۔ ایسا شخص کہ جو اپنے قوم و ملک کی شناخت اپنی شخصیت سے کرائے جب کہ متعدد نسلوں کی پہچان ان کے مردوں ہی سے ہوا کرتی ہے۔ ہر ملک و قوم اور قبیلوں کی پہچان ان کے انفرادی تہذیب و ثقافت سے ہوتی ہے لباس اس کی بنیاد ہوا کرتا ہے۔ یہ لباس اور تہذیب و ثقافت باوقار ہو تو دنیاوی معاشرے و سماج میں ایک مقام حاصل کر لیتی ہے۔ ورنہ فیصلہ دنیا بھر کے باشعور اور سمجھ دار لوگ کرتے ہیں کہ ہر مرد اپنی غفلت کی وجہ سے اپنا جہان الگ کر لیتا ہے، جیسے خواجہ سرا بے چارے ایک طرف ہو کر رہ لیتے ہیں، اسی طرح ہم جنس پرست بھی معاشرے سے کٹ کر جیتے ہیں، اپنی جنس تبدیل کرنے والوں کے گروہ بھی آپس ہی میں مگن رہتے ہیں، اب اسی طرح زنانہ قسم کے فیشن زدہ لوگوں کی دنیا عام باوقار سے بندوں سے ہٹ کر بن رہی ہے، کہتے ہیں کہ کچھ لباس ایسے تیار کئے جاتے ہیں جس سے جنسی خواہش ظاہر ہوتی ہے بہت سے مرد خفیہ طور پر ایسے ملبوسات کے ذریعے اپنی جنسی خواہش کا اشارہ دینے کا طریقہ ظاہر کرتے ہیں۔ آج کل کپڑے تن ڈھانپنے اور نفاست کی پہچان نہیں کرتے بلکہ مقصد فیشن پرست مردوں کو ظاہر کرانا ہوتا ہے۔ بعض برینڈڈ بوتیک ایسے ہوتے ہیں جہاں جنسی خواہش والے دلفریب قسم کے لباس پائے جاتے ہیں۔ مردانہ فیشن کے کچھ ڈیزائن ایسے ہوتے ہیں جس میں بعض کھلی بے شرمی و بے حیائی کے ثبوت و نمونے پیش ہوتے ہیں ایسے کہ خواتین کی برہنہ و نیم برہنہ تصاویر ٹی شرٹس پر چھپی ملتی ہے۔ پھر کہیں کسی شرٹ پر کسی عورت کےکھلے ہونٹ دکھائی دیتے ہیں، کہیں ایسی تصویر بھی چھپی ملی کہعورت کے دونوں ہاتھ مرد کےسینے پر تھے۔ ایسے مردانہ فیشن ضروری نہیں کہ مشرقی معاشروں میں ہے جانے جاتے ہیں بلکہ بعض ڈیسنٹ مغربی شخصیات بھی انہیں پسند نہیں کرتیں یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو باقاعدہ عام زندگی گزارنے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور اپنی نسلوں کو بھی ایسے بے تکے، چھچھورے اور بے حیا قسم کے فیشن سے دور رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ بعض یورپین والدین بھی اپنی اولاد کو خرافات سے پاک زندگی گزارنے کی تلقین کرتے ہیں۔ بھلے ہی یہاں کا آزاد ماحول ہے مادر پدر آزادی پھر بھی معاشروں میں کچھ زیادہ بگاڑ پیدا نہیں کرتی کہ انہیں بھی اچھے سے اپنی نسلوں کو پروان چڑھانا ہوتا ہے۔ کون والدین یہ چاہیں گے کہ ان کے خوبصورت ہینڈسم بیٹے سلک کی شوخ پنک قمیض پہن کر گھنگریالے گرل سٹائل کے بالوں کے ساتھ میک اپ میں نظر آئیں اور یہ میک اپ بھی صرف ہلکی پھلکی کریم و بیس کے ساتھ نہیں بلکہ باقاعدہ لپ اسٹک، کاجل اور آئی شیڈ کے شوخ رنگوں سے آنکھیں سجی دکھاتا ہے، صرف یہیں پر بس نہیں ہوتی ابھی تو اس کے ساتھ گلے میں چین، ہاتھوں میں چمکتا سا بریس لٹ اور کان کے بندے بھی اچھے خاصے لڑکے کو لڑکی ظاہر کرانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں کیا شوخ رنگ لئے ہیں مردانہ فیشن کی بہتات نے! یہ کسی ایک ملک و معاشرے کی بات نہیں ہو رہی بلکہ ہر طرف کا باوا آدم نرالا ہو چلا ہے۔ یورپ میں اگر نام نہاد زنانہ اسٹائل کے فیشن کا رواج ہے تو ہندوستان پاکستان میں بھی لڑکوں نے نت نئے زنانہ انداز کے لباس زرق برق قسم کے پہننا شروع کر دیئے ہیں۔ فیبرکس بھی خواتین جیسی مردانہ لباس میں استعمال ہو رہی ہے پھر اس پر ریشمی سلائی کڑھائی نے تو لڑکوں کو لڑکی بنادیا۔ زرق برق لباس زیب تن کرنے میں مرد حضرات خواتین کو بھی پیچھے چھوڑ گئے۔ لیڈیز کپڑے کی قمیضیں شیروانیاں اور شال دوپٹے تو مردانہ فیشن میں ایسے رچ بس گئے ہیں جیسے روز اول سے مرد و خواتین کے لباس میں کوئی فرق و انفرادیت ہی نہ تھی بلکہ مردانہ قمیض دوپٹے دیکھ کر جی للچاتا ہے کہ ہم یہ پہن لیں یا پھر اسے ہی کاپی کرلیں کہ ڈیزائن و اسٹائل میں فرق کم ہی ہے۔ ایشین معاشروں میں خواتین جیسے فیشن اپنانا ایک الگ معاملہ ہے مگر بعض مسلم بگڑی نوجوان نسل کو جو خود نمائی کا شوق چرایا ہے کہ باڈی بنا کر ان پر ٹیٹو بنوانا باڈی کی ویکسنگ کرا کے کھلے گریباں اور ٹائٹ سی جینز پہن کر اتراتے پھرنا یہ بھی فیشن اور شوبازی کا حصہ ہے کہ شوق بھی مول بکنے لگے جن کے پہلے مول نہ تھے، ہمارے مذہب میں تو مردوں اور عورتوں کی ایک دوسرے سے مشابہت پر لعنت فرمائی گئی ہے۔ آپﷺ نے وضع قطع اور لباس کے بارے میں یہ ہدایات دیں کہ مرد عورتوں والا لباس پہن کر نسوانی صورت نہ بنائیں اور عورتیں مردانہ مخصوص کپڑے پہن کر اپنی نسوانی فطرت پر ظلم نہ کریں۔ آپﷺ نے سرخ رنگ کے کپڑے اور ریشمی لباس سے بھی مردوں کو منع فرمایا ہے اور سونے کی انگوٹھی پہننے کو حرام قرار دیا جب کہ پیتل اور تانبے کو مکروہ قرار دیا ہے۔ مخصوص قسم کے مردانہ فیشن اگر بے حیائی کو دعوت دیں تو پھر مردوں پر بھی نیت خراب ہو سکتی ہے مرد و عورت کی اور یہ معاشرے میں بگاڑ کا سبب بن سکتے ہیں۔