کراچی (رفیق مانگٹ) بھارتی سپریم کورٹ کے سینئر وکیل دشینت ڈیو نے کہا ہے کہ ہندوستان کے مقابلے میں پاکستانی عدلیہ نے بہت سے معاملات میں بہت بہتر کام کیا ہے، انہوں نے مشرف دور میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی مثال پیش کرتے ہوئے بتایا کہ مشرف دور میں ججوں کے فیصلے پر چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی ہوئی ، پاکستانی عدلیہ آمریت میں زیادہ آزاد تھی، بھارتی عدلیہ میں بدترین تقرریاں ہوئیں، سابق انڈین وزیر قانون نے اپنی سپریم کورٹ کے سامنے بدعنوان چیف جسٹسز کی تفصیلات رکھیں ، چیف جسٹس چندر چوڑ دنیا اور ملک کو لیکچر دیتے ہیں، عدلیہ کو حساس بنانے کیلئے کچھ نہیں کرتے۔ انہوں نے 2009 میں مشرف دورمیں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کی مثال دی۔جب 2007 میں جنرل مشرف نے ایمرجنسی کے دوران انہیں برطرف کر دیاتوانہیں 2009 میں زبردست احتجاج کے بعد بحال کر دیا گیا،جب انہیں ہٹایا گیا تو پوری پاکستان بار نے احتجاج کیا۔ ججوں نے فیصلہ دیا کہ چیف جسٹس کو بحال کیا جانا چاہیے اوروہ بحال کر دیے گئے ۔میں یہ نہیں کہہ رہا کہ پاکستانی عدلیہ بہتر ہے۔ یہ چیف جسٹس افتخار کا مقدمہ مثال ہے کہ پاکستانی عدلیہ آمریت کے دور میں زیادہ آزاد تھی۔ بھارتی کالجیم سسٹم ( موجودہ جج صاحبان کا آئینی عدالتوں میں ججز کی تعیناتی کا نظام) کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ایک تباہ کن ناکامی قراردیا۔انہوں نے کہا سپریم کورٹ آج اتنی مضبوط نہیں جتنی ہو سکتی ہے ،یہ کالجیم نظام کے نتیجے میں اعلیٰ عدلیہ میں بدترین تقرریاں ہوئی ،پچھلے 40 سالوں میں بہت سے ججوں کے خلاف مالی بے ضابطگیوں کے سنگین الزامات لگے انمیں کئی چیف جسٹسز بھی شامل ہیں۔ سابق وزیر قانون شانتی بھوشن نےعدالت کے سامنے بدعنوان چیف جسٹسز کی تفصیلات بندلفافے میں رکھیں توسپریم کورٹ نےاس کیس کی پیروی کرنے کی جرات نہیں دکھائی اور بعد میں اس کیس کو خارج کر دیا۔1993 سے پہلے جب ایگزیکٹو تھی، کچھ جج خراب تھے، لیکن بڑے پیمانے پر ججوں کا معیار، اہلیت یا دیانت کے لحاظ سے، بے عیب تھا۔ بعد میں بہت سے ایسے جج آئے جن کے پاس کوئی اہلیت یا دیانت نہیں۔اگر تقرری کا اختیار سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ایگزیکٹو کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے، تو وہ اپنے لوگوں کی تقرری کریں گے۔ اب وہ کالجیم سسٹم کے ذریعے بھی کر رہے ہیں۔ کالجیم نظام میں حکومت کا اثر ہے۔ پچھلے آٹھ یا نو سالوں میں، حکومت کے اثر و رسوخ کے ساتھ سفارشات ایک نظریہ کو بھی ظاہر کرتی ہیں، بہت سے وکیل جج کے لیے بالکل اہل ہیں لیکن، ان پر غور نہیں کیا جا رہا ہے کیونکہ کالجیم کے اراکین پر ان کا کوئی اثر و رسوخ نہیں ،یا ان کا نظریہ موجودہ حکومت یا سابقہ کانگریس حکومت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ ڈیو نے یہ بھی کہا کہ ہائی کورٹ کے ججوں کو حساس ہونے کی ضرورت ہے اور موجودہ چیف جسٹس کا یہ فرض ہے کہ وہ انہیں درست کریں یا سزا دے کر انہیں حساس بنائیں۔ عدلیہ کافی حد تک حساس نہیں ، خاص طور پر خواتین، دلتوں سے متعلق مسائل پر ۔گجرات میں اب بھی اگر کوئی دلت گھوڑے پر بیٹھ کر شادی کرنے جاتا ہے تو اس کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ ہمارا ایک معاشرہ ہے جہاں صرف راجپوت کو گھوڑے پر سوار ہونے کا حق ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے 2023 کے فیصلے پر ریمارکس میں شادی کو تنقید کانشانہ بنایا، ایک جج نے کہا کہ ڈنڈا مارنا جرم نہیں،اس عورت کی حالت زار کا تصور کریں جسے ڈنڈا مارا جا رہا ہے، اسے اپنی جان کا خوف ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس چندر چوڑ جیسے لوگ جو دنیا اور ملک کو لیکچر دیتے ہیں، عدلیہ کو حساس بنانے کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ ڈیو نے یہ بھی کہا کہ چیف جسٹس کو بعض فیصلوں پر ججوں کو سزا دینے کا اختیار ہے۔ جو جج ایسا کرے، ان کا تبادلہ کیوں نہیں کرتے؟ چیف جسٹس حکومت کو ججوں کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کرنے کی سفارش کر سکتا ہے۔ ہمیں اس نظام میں ایسے جج نہیں چاہیے۔