• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: افتخار کلوال…لیڈز
اب اپنے اصل کی طرف لوٹ آؤ ،یہ جملہ وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر کی تقریر میں متعدد بار سننے کو ملا میرپور بار کی وزیراعظم آزاد کشمیر کو دعوت اور ان کا خطاب ان دنوں موضوع بحث ہے 27دسمبرکو چوہدری انوار الحق نے طویل خطاب کیا، ان کے خطاب سے قبل صدر میرپور بار کامران طارق ایڈووکیٹ نے سپاس نامہ پیش کیا سپاس نامہ مطالبات کی ایک لمبی فہرست تھی جس میں میرپور کے اجتماعی مسائل جیسے لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ ،مفت بجلی ،رٹھوعہ ہریام پُل کی تکمیل ،واٹر سپلائی، گیس فراہمی، ذیلی کنبہ جات،سڑکوں کی تعمیر نو ، نجی بنکوں کو میرپور کی تعمیر و ترقی پر خرچ کرنے کا پابند بنانا،غیر ریاستیوں کے جعلی باشندہ ریاست کی منسوخی، منگلا ٹول ٹیکس کا خاتمہ وغیرہ شامل تھیں یہ تمام عوامی مطالبات ضلع میرپور کے چار منتخب ممبران اسبملی کے سامنے کیے گئیں جو ممبران اسمبلی وزراء حکومت کے پروٹوکول اور مراعات سے پوری طرح فیضیاب ہیں. ان عوامی مطالبات کے علاوہ بہت سے ایسے مطالبات بھی شامل تھیں جن کا تعلق صرف وکلاء اور بار سے تھا جیسے وکلا کے لیے رہائشی کالونی،بار کیلئے مستقل بجٹ مختص کرنا،خواتین ججز کی تعیناتی،تین سو مقدمات پر ایک جج کی تعیناتی،وکلا کیلئے صحت سہولیات، پرائیویٹ بزنسز کو لیگل ایڈوائزر تعیناتی کا پابند بنانا وغیرہ شامل تھا اس طویل سپاس نامہ کے جواب میں وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر کے قابل ذکر اعلانات میں بار کیلئے تیس لاکھ روپے نقد اور وکلاء کالونی کے لیے اقدامات کرنا شامل ہے رٹھوعہ ہریام پل پر جنوری میں ٹنڈر نیلامی اور فروری میں کام کے آغاز بارے بھی بات کی جس پر پہلے دسمبر میں کام کے آغاز کا کہا جاتا رہا باقی مطالبات کو وزیر اعظم نے جائز اور درست تسلیم کرتے ہوئے روایتی انداز میں ان پر سوچ بچار اور حکمت عملی بنانے کا کہا، اس پروگرام اور وزیراعظم انوار الحق کے بیان کے بعد میرپور بار کی قیادت تنقید کی زد میں ہے میرے خیال میں یہ کہنا بار کی قیادت نے تحریک کو بیچ دیا ہے ذاتی مفادات کی خاطر اجتماعی مطالبات کو قربان کر دیا ہے کہنا درست نہیں تاہم بار کی قیادت کو حکمت عملی کے درست یا غلط ہونے پر بات کرنے کا حق ضرور دینا چاہئے، آزاد کشمیر میں جاری موجودہ تحریک کا سہرا کسی ایک فرد،تنظیم اور ادارے کے سر ہر گز نہیں جاتا یہ تحریک حالات کی پیدا کردہ ہے جس میں بہرحال میرپور بار نے اجتماعی حقوق اور مسائل پر ضلع میرپور کے لوگوں کو منظم کرنے میں ایک کردار ادا کیا۔ بار ایسوسی ایشنز ہو، پریس کلب، NGOʼs یا دیگر ایسی تنظیمیں جن کا کوئی مستقل ذریعہ آمدن نہیں ہوتا وزیراعظم وقت یا وزراء کو مدعو کر کے اپنے لیے سرکار سے کچھ ناں کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ایسا تاہم معمولی حالات میں ہوتا ہے اس وقت جاری عوامی تحریک کے باعث غیر معمولی حالات ہیں کسی حتمی معاہدہ اور عمل درآمد کی واضح حکمت عمل سے قبل میرپور بار کو وزیراعظم آزاد کشمیر کو بار میں دعوت دینا درست حکمت عملی نہیں اجتماعی عوامی مسائل اور بار کے نجی مطالبات کو مکس کرنا بھی عوامی ذہنوں میں الجھاؤ کا باعث بنا۔ میرپور بار کے لیے درست حکمت عملی یہی ہے کہ آزاد کشمیر حکومت کے مرکزی جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی سے تحریری معاہدہ کے بعد ، بجلی بلوں کے حتمی ٹیرف اور تحریری معاہدہ پر عملدرآمد کے طریقہ کار کے وضع ہونے تک جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی آزاد کشمیر کے ساتھ کھڑے ہوں۔ جیسے باجماعت نماز کا زیادہ ثواب ہے بالکل ویسے ہی تحریک سے زیادہ ثمرات حاصل کرنے کے لیے اتحاد و اتفاق ضرورت ہے دیگر وکلاء بار ایسوسی ایشنز کی طرح میرپور بار ایسوسی ایشن کو بھی مرکزی عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ مل کر عوامی حقوق کی تحریک کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ حالات کی پیدا کردہ اس تحریک سے زیادہ سے زیادہ اجتماعی عوامی حقوق حاصل ہو سکیں۔ وزیراعظم آزاد کشمیر نے اپنی تقریر میں اصل کی طرف لوٹنے "یعنی بھارتی مقبوضہ کشمیر" پر توجہ دینے کا بارہا مشورہ دیا اگر وہ چاہتے ہیں لوگ اپنے بنیادی حقوق سے دستبردار ہو کر صرف بھارت مظالم اور اقدامات کا رونا روتے رہیں تو ایسا اب یکطرفہ ہوتا نظر نہیں آرہا جب وزیراعظم خود اور ان کی کابینہ کے لوگ برملا یہ کہتے ہیں کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات بالکل درست اور جینوئن ہیں جب خود اعتراف کرتے ہیں اس تحریک نے عوام کو بنیادی حقوق کے حوالے سے شعور دیا ہے تو پھر وہ اپنے حقوق سے کیونکر دستبردار ہوں گے جبکہ ان کی آنکھوں کے سامنے ہے کہ ان کے ٹیکسز سے ایک مخصوص طبقہ دہائیوں سے عیاشیاں کر رہا ہے مراعات کے مزے لوٹ رہا ہے ایسے میں عام عوام بھارتی مقبوضہ کشمیر کے نام پر محروم کیوں رہیں گے وزیراعظم انوار الحق اگر واقعی بھارتی مقبوضہ کشمیر کے لیے فکر مند ہیں تو انہیں چاہیے اس خطے ’’آزاد کشمیر‘‘ کو اس پار کے لیے رول ماڈل بنائے لوگوں کے بنیادی مسائل حل کریں. جہاں اسمبلی ممبران کی تعداد 53ہے وہاں اگر اکتیس وزراء حکومت ہو گئیں حکمران طبقے کو فری بجلی، فری فیول سمیت لاتعداد مراعات حاصل ہو گی تو ایسے میں اصل کی طرف لوٹنے کے مشورے کو کون سنجیدہ لے گا۔
یورپ سے سے مزید