کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی پاکستان بار کونسل حسن رضا پاشا، ماہر قانون فیصل صدیقی اور سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن صباحت رضوی نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اختلافات کے باوجود اس بات پر اتفاق کیا کہ عدالتی فیصلوں پر تنقید ہونی چاہئے مگر ججوں پر تنقید نہیں ہونی چاہئے۔
سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ بار صباحت رضوی نے کہا کہ ججوں کے ساتھ صحافیوں، وکلاء اور سیاستدانوں کی ٹرولنگ بھی نہیں ہونی چاہئے۔
پروگرام میں صدر سپریم کورٹ ایسوسی ایشن شہزاد شوکت ،سیکرٹری اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن رضوان شبیر کیانی اور نائب صدر پاکستان بار کونسل ہارون الرشید کے پروگرام کیپٹل ٹاک کیلئے نمائندہ جیو نیوز سے گفتگو بھی شامل تھی۔
ماہر قانون فیصل صدیقی نے کہا کہ تحریک انصاف سے بلے کا نشان واپس لینے کا فیصلہ غیرآئینی و قانونی ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین اور الیکشن ایکٹ کے بھی خلاف ہے، کسی پارٹی سے انتخابی نشان چھیننا جمہوری تقاضوں کے منافی ہے، سپریم کورٹ نے انتخابی نشان واپس لینے کی کوئی ایسی وجہ بیان نہیں کی جو آئین، الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق ہو، الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ پی ٹی آئی کا الیکشن کمیشن اور الیکشن کمشنر غلط مقرر ہوئے اس لیے الیکشن غلط تھا، سیکشن 209 الیکشن کمیشن کو کسی سیاسی جماعت کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا ، کسی سیاسی جماعت کے الیکشن کو چیلنج کرنے کیلئے سول کورٹ جانا پڑتا ہے۔
فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھیں تو شاک لگتا ہے، سپریم کورٹ نے غلط ٹیکنیکل اعتراض اٹھایا کہ پی ٹی آئی پشاور ہائیکورٹ کیوں گئی اسے لاہور ہائیکورٹ جانا چاہئے تھا، اگر کوئی آرڈر دو ہائیکورٹس میں چیلنج ہوسکتا ہے تو کسی بھی ہائیکورٹ سے رجوع کیاجاسکتا ہے۔فیصل صدیقی نے کہا کہ ججوں سمیت کسی کی بھی ٹرولنگ نہیں ہونی چاہئے، ٹرولنگ کرنے والوں کیخلاف قانون کے مطابق ایکشن لینا چاہئے، ان کا مقصد ٹرولنگ کیخلاف کارروائی کی آڑ میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر اختلاف اور تنقید کو روکنا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے نے آئین اور جمہوریت کی بنیادیں ہلادی ہیں، سیاسی جماعتوں کی انتخابات میں انتخابی نشان کے بغیر شرکت ممکن نہیں ہے.
سیاسی جماعتوں کا مستقبل الیکشن کمیشن کے حوالے کیا جارہا ہے، الیکشن کمیشن کی پچھلے تین چار سال میں کارکردگی انتہائی خراب رہی ہے، ایسا الیکشن کمیشن جیسے بلدیاتی، صوبائی اور قومی الیکشن کروانے میں مشکل ہوتی ہے وہ 175رجسٹرڈ پارٹیوں کو کیسے ریگولیٹ کرے گا۔