• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کے بچےجلد ہر آئے دن مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں، جن میں ایک مسئلہ ’الرجی‘ کا بھی ہے۔ بچوں میں الرجی کے مسئلے پر میڈیکل سائنس میں کئی برسوں سےتحقیق کا عمل جاری ہے۔ برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں ’مونگ پھلی‘ کو اس (الرجی) کا حل قرار دیا گیا ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ مونگ پھلی الرجی کا باعث بنتی ہے، آج سے 10-15سال قبل کی ایسی ریسرچ موجود ہیں، جن میں الرجی سے نمٹنے کے لیے مونگ پھلی کا استعمال سختی سے منع کیا گیا تھا۔ 

تاہم اب نئی تحقیق میں اِ س نظریے کو یکسر مسترد کرتی ہے۔ مونگ پھلی اور بچوں میں الرجی کے تعلق پر جب نئی تحقیق کی گئی تو نتائج دیکھ کر ماہرین خود بھی حیران رہ گئے۔ تحقیق کے مطابق، بچپن میں مونگ پھلی سے تیار کردہ مصنوعات کے استعمال سے الرجی کا شکار ہونے کے خطرے میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں برطانیہ میں ڈاکٹرز بڑے پیمانے پر تجربات کررہے ہیں اور ان تجربات کے نتائج کافی حوصلہ افزاء بتائے جاتے ہیں۔

حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ، ابتدائی عمر میں مونگ پھلی سے تیار کردہ مصنوعات کے استعمال سے الرجی کا شکار ہونے کے خطرے میں کمی کی توثیق ایک سے زائد تحقیق نے کی ہے۔

2015میں اسی سلسلے میں ایک سروے کیا گیا تھا اور اس سروے میں پہلی بار یہ بات کی گئی تھی کہ بچوں کو چھوٹی عمر میں مونگ پھلی کھلانے سے اس سے ہونے والی الرجی سے 80فی صد تک بچنے کا امکان پیدا ہوجاتا ہے۔

اب نئی تحقیق میں مزید پیش رفت سامنے آئی ہے اور محققین کہتے ہیں کہ الرجی سے ’مستقل‘ بچاؤ ممکن ہوسکتا ہے۔

انگلینڈ جرنل آف میڈیسن کی تحقیق میں 550ایسے بچوں کا معائنہ کیا گیا، جن میں مونگ پھلی سے الرجی پیدا ہونے کا خطرہ تھا۔ تحقیق کے مطابق، اگر ایک بچہ اپنی پیدائش سے 11 ماہ کی عمر تک مونگ پھلی سے تیار کردہ اسنیکس کھاتا ہے اور پانچ سال کی عمر میں وہ یہ غذا ایک سال کے لیے چھوڑ دیتا ہے، تو اس میں الرجی پیدا نہیں ہوگی۔

اس تحقیق کے سربراہ پروفیسر گیڈیون تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’(تحقیق) سے واضح ہوتا ہے کہ بیشتر شیرخوار بچے محفوظ رہتے ہیں اور یہ تحفظ مستقل ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ لوگ ’غذا سے خوف کے ماحول‘ میں رہتے ہیں۔ یہ بات سچ بھی ہے۔ ہم میں سے اکثر والدین اپنے بچوں کو مختلف غذا دینے کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا رہتے ہیں۔ نتیجتاً، بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو اس وقت تک ان کی طبیعت ایسی ہوجاتی ہے کہ وہ کچھ چیزوں کو زندگی بھر ہاتھ نہیں لگاتے۔

پروفیسر گیڈیون اس بات کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں،’میرے خیال میں غذا سے الرجی کا خوف خودساختہ طور پیدا کردہ ہے، چونکہ غذا کو خوراک سے نکال دیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں بچہ برداشت پیدا نہیں کر سکتا‘۔

محققین نے 2015کی تحقیق میں شامل بچوں کو ہی استعمال کیا۔ اس میں سے نصف کو مونگ پھلی کے اسنیکس دیے گئے اور دیگر کی غذا صرف ماں کا دودھ تھی۔ محققین کا کہنا ہے کہ ’تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ چھ سال کی عمر میں، 12 مہینے کے تعطل کے بعد بھی عددی اعتبار سے الرجی میں اضافہ نہیں ہوا، ان بچوں میں جنھوں نے (2015کے) تجربے میں مونگ پھلیاں کھائی تھیں‘۔

صحت سے مزید