ماں بولی اور اپنی ثقافت سے محبّت و اُنسیت انسان میں پایا جانے والا ایک فطری جذبہ ہے۔ کسی بھی علاقے یا خطّے کی ثقافت وہاں کے رسم و رواج، رہن سہن، بودوباش، علم و ادب اور فنونِ لطیفہ سمیت کم و بیش زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہے۔ پاکستان دُنیا کے اُن خوش قسمت ممالک میں شامل ہے، جن کی ثقافت میں خاصا تنوّع، رنگا رنگی پائی جاتی ہے اور اس میں قدیم سرائیکی تہذیب بھی شامل ہے۔
گزشتہ برس وسیب کی ثقافت کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی کے لیے ملتان میں سرائیکی قوم کا درد رکھنے والے ظہور دھریجہ نے ایوانِ صنعت و تجارت سمیت دیگر اداروں کے اشتراک سے دوسرے سالانہ سرائیکی فوڈز فیملی فیسٹیول کا انعقاد کیا۔ ماضی کی طرح یہ میلہ بھی’’ ملتان ٹی ہاؤس‘‘ میں سجایا گیا، جس میں سرائیکی شعرا، ادبا، دانش وَروں، مفکّرین اور سیاسی رہنماؤں کے علاوہ کمشنر ملتان ڈویژن، انجینئر عامر خٹک، ڈپٹی کمشنر ملتان، رضوان قدیر، ڈائریکٹر جنرل، ایم ڈی اے، زاہد اکرم، سیکریٹری سروسز ملتان سول سیکریٹریٹ، امجد شعیب، ڈپٹی کلکٹر کسٹمز، مریم جمیلہ اور انتظامیہ کے دیگر افسران سمیت شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ فیسٹیول میں لگائے گئے کرافٹ بازار اور پینٹنگز کی نمائش میں رکھے گئے ہُنر مندوں کے شاہ کار قابلِ دید تھے۔
واضح رہے کہ کرافٹ بازار کے رُوحِ رواں، ملک عبدالرحمٰن نقاش کا خاندان کئی نسلوں سے فن کی خدمت کر رہا ہے اور وہ اس سلسلے میں دُنیا کے مختلف ممالک میں منعقدہ مقابلوں میں اوّل انعام بھی حاصل کر چُکے ہیں۔ اسی طرح معروف مصوّر، ضمیر ہاشمی کی لاجواب پینٹنگز کو بھی خُوب پذیرائی ملی۔
سرائیکی فوڈ فیسٹیول میں 60کے لگ بھگ دیسی کھانے مٹی کے مختلف برتنوں میں سجا کر نمائش کے لیے رکھے گئے تھے۔ سرائیکی وسیب کی پہچان ان کھانوں میں گندلوں کا ساگ، سُہانجنا، سِری پائے، چُوری، دال مونگ، آلو میتھی، گُڑوالے چاول، دھونگاری والی دال، چینڑیں دا بھت،ڈولی روٹی،چاٹی والی لسی، مولی کا پراٹھا، لونک، سرائیکی زردہ پُلائو، سجّی، مکھن مکئی، سویّاں اور چکن، مچھلی اور گوشت سے بنے مختلف کھانےقابلِ ذکر ہیں۔ ذیل میں فوڈ فیسٹیول میں رکھے گئے درجنوں دیسی کھانوں میں سے چند ایک کا مختصر تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔
گُڑ والے چاول:
گزرے وقتوں میں ’’گُڑ والے چاول‘‘ سرائیکی وسیب کی مقبول ترین سوئیٹ ڈِش سمجھی جاتی تھی۔ تب تقریباً ہر گھر میں وقتاً فوقتاً گُڑ والے چاول شوق سے بنائے اور رغبت سے کھائے جاتے۔ دیسی گھی میں تیار کیے جانے والے ان چاولوں کو لذیذ اور صحت بخش بنانے کے لیے ان میں سونف اور کشمش سمیت دیگر ڈرائی فروٹس بھی استعمال کیے جاتے تھے۔ فوڈ فیسٹیول میں شریک افراد نے مذکورہ ڈِش میں خصوصی دِل چسپی کا مظاہرہ کیا۔
دھونگاری والی دال:
سرائیکی زبان کی مشہور کہاوت ہے کہ ’’دال نت نبھے نال‘‘۔ دال اور سرائیکی وسیب کا رشتہ خاصا قدیم ہے، کیوں کہ پورے پاکستان میں دال کی سب سے زیادہ پیداوار تھل کے اضلاع میں ہوتی ہے اور سرائیکی وسیب میں گھروں میں مختلف دالیں کثرت سے پکائی جاتی ہیں۔ لہسن اور گھی کے تڑکے کے ساتھ بنائی جانے والی دال ماش اور دال مسور کو سرائیکی میں ’’دھونگاری والی دال‘‘ کہا جاتا ہے۔
اس ضمن میں سرائیکی کی مشہور کہاوت ہے کہ ’’دھونگاری دی خوش بو سارے محلے اِ چ نہ آوے تاں اُو دھونگاری نہ تھئی‘‘۔ (دھونگاری دال کی خوش بُو پورے محلے میں نہ پھیلے، تو وہ دھونگاری دال ہی نہیں) سرائیکی فوڈ فیملی فیسٹیول میں دھونگاری والی دال کو بھی بے حد پسند کیا گیا۔
آلو میتھی :
سرائیکی وسیب میں ساگ کی مختلف اقسام نہایت شوق سے پکائی جاتی ہیں اور دال کی طرح ساگ کا بھی وسیب سے قدیم رشتہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی زمانے میں بعض افراد سرائیکیوں پر طنز کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ’’سرائیکی گھاس پکا کر کھاتے ہیں۔‘‘ مگر جب اُن افراد کو یہ پتا چلا کہ بڑی محنت سے پکایا جانے والا ساگ کتنا لذیذ ہوتا ہے، تو وہ بھی وسیب کے باشندوں، بالخصوص خواتین کی سمجھ داری اور عقل مندی کے قائل ہو گئے۔ ساگ کی مختلف اقسام میں میتھری (میتھی) کا ساگ بھی شامل ہے، جو آلو کے ساتھ پکایا جاتا ہے اور اس کا ذائقہ اور لذّت اپنی مثال آپ ہے۔ سرائیکی فوڈ فیملی فیسٹیول میں آلو میتھی ایک خاص ڈِش تھی۔
گندلوں کا ساگ اور مکھن مکئی:
گندلوں کا ساگ سرائیکی وسیب کی موسمِ سرما کی خاص سوغات ہے ۔ وسیب میں اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس پر ایک ایک گیت ’’گندلاں دا ساگ تے مکھن مکئی‘‘ بھی بن چُکا ہے، جو خاصا مشہور ہوا۔ فوڈ فیسٹیول میں گندلوں کا ساگ اور مکھن مکئی شرکا کی سب سے مرغوب ڈِش تھی۔
چینڑیں دا بھت:
بابا بُلھے شاہ کی مشہور کافی، ’’چینڑاں ایں چھنڑینداں یار‘‘ کا حق، معروف سرائیکی گلوکار پٹھانے خان نے خُوب ادا کیا۔ ماضی میں ’’چینڑیں دا بھت‘‘ نامی ڈِش وسیب میں خاصی مقبول تھی، لیکن اب لوگ اس مزے دار ڈِش کو تیار کرنے کا طریقہ تک بُھول چُکے ہیں۔ فوڈ فیملی فیسٹیول میں دیگر دیسی کھانوں کے علاوہ ’’چینڑیں دا بھت‘‘ نامی ڈِش بھی رکھی گئی تھی اور شرکا کے پوچھنے پر اسے پکانے کی ترکیب بھی بتائی گئی۔
ڈولی روٹی:
ڈولی روٹی سرائیکی فوڈ فیملی فیسٹیول کی خاص سوغات تھی۔ دودھ میں گندھے میدے سے تیار کردہ اس روٹی کو گھی میں تلنے کے بعد اس میں چھوٹی الائچی اور مختلف خُشک میوہ جات پیس کر شامل کیے جاتے ہیں۔ وسیب میں مذکورہ ڈِش کی مقبولیت کی اندازہ اس سرائیکی کہاوت سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ’’رن کیوں نہ ہووے موٹی، اے جو کھاوے ڈولی روٹی۔‘‘
آج سرائیکی وسیب کے باشندے ایک نئی امید، نئی امنگ اور نئے جوش و ولولے کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ تاہم، جدید دُنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے لیے اُنہیں ایک نئے نقطۂ نظر، نئے بیانیے اور نِت نئے آئیڈیاز کے ساتھ اپنی تہذیب و ثقافت کو مضبوط و مستحکم بنانے کی بھی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں سرائیکی فوڈز فیملی فیسٹیول کا انعقاد تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ وسیب کے باشندے اپنی ثقافت سے از حد محبّت کرتے ہیں اور پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان سب کچھ بُھول سکتا ہے، مگر اپنے ماضی اور اپنے پُرکھوں کی رِیت روایات کو فراموش نہیں کرسکتا۔
نیز، انسان چاہے کتنا ہی ماڈرن اور ترقّی یافتہ کیوں نہ ہو جائے، ناسٹلجیا اُس کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ ایسے میں اگر سرائیکی فوڈز فیملی فیسٹیول کو وسیب کی عظمتِ رفتہ کو یاد کرنے کی ایک کوشش قرار دیا جائے، تو بے جا نہ ہو گا۔ درحقیقت، سرائیکی وسیب قدیم بھی ہے اور عظیم بھی۔ اس کی تہذیب و ثقافت اپنی مثال آپ ہے اور یہ فوڈ فیسٹیول کسی یادگار سے کم نہیں۔