اسلام آباد (رپورٹ:،رانا مسعود حسین، جنگ نیوز )سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے اپنی برطرفی کے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کیخلاف دائر کی گئی آئینی درخواست کی سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے فریقین کے وکلا ء سے چار سوالات پر مبنی تحریری جواب طلب کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اگر وکلا ء کے جواب میں کوئی نیا قانونی نقطہ سامنے آگیا تو اس صورت میں کیس دوبارہ سماعت کیلئے مقرر بھی کیا جاسکتا ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان ،جسٹس جمال خان مندو خیل،جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت خان پر مشتمل پانچ رکنی لاجر بینچ نے منگل کے روز شوکت عزیزصدیقی کی آئینی درخواست کی سماعت کی۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کہ سکہ ہوا میں پھینک کر فیصلہ نہیں کر سکتے،محتاط چلنا ہوگا، کہیں اداروں کے درمیان قائم آئینی توازن خراب نہ ہو،اگر تقریرکرنے پر جج کو ہٹایا جائے پھر تو آدھی عدلیہ گھر چلی جائے گی، شہرت حاصل کرنے کیلئے تو تقریر نہیں کی ہوگی،قوم اب کافی کچھ برداشت کر چکی ،ہماری تشویش ادارے کی ساکھ سے متعلق ہے، قوم کو سچ کا علم ہونا چاہیے،کیا آپ نہیں چاہتے کہ سچ سامنے آنا چاہیے، ہم کارروائی کو کیسے آگے بڑھائیں، قوم کو بھی پتہ چلنا چاہیے کہ شوکت عزیزصدیقی کے الزامات سچے ہیں یا جھوٹے،ریاستی ادارے لوگوں کی خدمت کیلئے ہوتے ہیں، یہ کیس عدلیہ کی خودمختاری سے متعلق بھی ہے،عدلیہ عوام کے پیسوں سے چلتی ہے، سپریم جوڈیشل کونسل نے بغیر کارروائی کیسے جج کو ہٹا دیا،اگر کوئی جج مجھے پسند نہیں آتا تو کیا اسے بغیر انکوائری ایسے ہٹا یا جاسکتا ہے؟ایسا نہیں ہونا چاہیے کسی کو کوئی جج پسند نہیں تو اسے نکال دیا جائے؟ اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین نے تسلیم کیا ہے کہ شوکت عزیز صدیقی کو ہٹانے سے قبل مکمل انکوائری ہی نہیں کی گئی تھی، چیف جسٹس نے وکلاء کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کا یہ پانچ رکنی بنچ کیسا فیصلہ دے سکتا ہے،تو شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کوسپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی غیر آئینی قرار دے دینی چاہیئے ،جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے اگر شوکت صدیقی کے الزامات سچ ثابت نہیں ہوتے تو کیا ہوگا؟ ہم ان مقدمات کے فیصلوں کے ذریعے مثال قائم کرنا چاہتے ہیں، الزامات کھلے عام لگائے گئے ،اگر انکوائری کے بعد الزمات غلط ثابت ہوتے ہیں تو کیا جج کو ہٹانے کا فیصلہ برقرار رہے گا؟ اسی لئے ہی ہم نے جن پر الزامات لگائے گئے تھے ،انہیں فریق بنانے کی ہدایت کی تھی ،چیف جسٹس نے کہاکہ ہم کیسے تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیں؟کیا ہم یہ معاملہ دوبارہ غور کیلئے سپریم جودیشل کونسل کو بھیج دیں؟حکومت کے کسی ماتحت ادارے پر بلاوجہ الزام لگانا بھی اچھی بات نہیں ،جس پر الزام لگایا گیا میں اسے ادارہ نہیں بلکہ حکومت کا ایک ماتحت ادارہ کہوں گا۔