• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن ایکٹ کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات سے PTI کو بلے سمیت تمام فوائد حاصل ہوتے، سپریم کورٹ

اسلام آباد( رپورٹ:،رانامسعود حسین) سپریم کورٹ نےʼʼپی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخاباتʼʼ اورʼʼ بلے کے انتخابی نشانʼʼ سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلا ف دائر الیکشن کمیشن کی اپیل میں پی ٹی آئی کو بلے کے انتخابی نشان سے محروم کرنے سے متعلق مقدمہ کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے قراردیاہے کہ الیکشن کمیشن نے قانون کے مطابق پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد کا بار بار موقع فراہم کیا تھا،اس لئے پی ٹی آئی کو بلے سے محروم کرنے کی ساری ذمہ داری پارٹی معاملات چلانے والے ان افراد پر ہے جو پارٹی میں جمہوریت ہی نہیں چاہتے ہیں،اگر انٹرا پارٹی انتخابات منعقدکروائے جاتے توپی ٹی آئی کو انتخابی نشانʼʼ بلاʼʼسمیت وہ تمام فوائد حاصل ہوتے جوکہ الیکشن ایکٹ میں بیان کئے گئے ہیں ، سیاسی جماعت کو اپنے لیڈروں کی جاگیر نہیں بننا چاہیے، سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابی عمل کو متعارف کروانے سے ہی ملک میں جمہوری کلچر کو فروغ ملے گا،موجودہ حکمران اشرافیہ اپنی سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد سے جان بوجھ کر گریز کیا کرتے اورپارٹی کومرضی اور من مانے طریقے سے چلا رہے ہیں،یاد رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی ٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بنچ نے 13جنوری کو کیس کی تقریبا 14گھنٹے کی سماعت کے بعد فیصلہ جاری کیا تھا،جمعرات کے روز جاری کیا گیا 38 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قلمبند کیا ہے ،فیصلے کے مطابق عدالت نے الیکشن کمیشن کی پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلا ف دائر اپیل منظور کرتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم کر دیا ہے،فیصلے کے مطابق پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات میں اپنے ہی ممبران کو لاعلم رکھاتھا اس لئے قانون کے مطابق پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان نہیں دیا جاسکتا ہے، الیکشن کمیشن کے متعدد شوکاز نوٹسزکے باوجود پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات منعقد نہیں کرائے تھے ،عدالت نے قراردیاہے کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے انٹرا پارٹی انتخابات منعقد نہ کروانے پر اس سے انتخابی نشان واپس لے سکتا ہے، اس لئے یہ عدالت پشاور ہائیکورٹ کے دس جنوری 2024کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کے 22دسمبر 2023کے فیصلے کو بحال کرتی ہے، عدالت نے قراردیاہے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو انتخابات کے انعقاد کا ایک اور موقع فراہم کیا تھا،جبکہ پی ٹی آئی کو بلے سے محروم کرنے کی ساری ذمہ داری پارٹی معاملات چلانے والوں پراور ان پر بھی ہے جو پارٹی میں جمہوریت نہیں چاہتے ہیں،جنہوں نے یکطرفہ اور من مانے طور پر پی ٹی آئی کے 8 لاکھ 50 ہزار بیان کردہ اراکین کے ووٹنگ کے حق کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک سیاسی جماعت پر قبضہ کر لیا ہے، عدالت نے مزید قراردیاہے کہ ان کے ایسے غیر جمہوری اقدامات کی وجہ سے پی ٹی آئی کو نقصان اٹھانا پڑا اور اپنا انتخابی نشان حاصل کرنے کے لیے نااہل قرار دیا گیا ہے، کسی سیاسی جماعت کو معمولی بے ضابطگیوں پر اس کے انتخابی نشان سے محروم نہیں کرنا چاہیے،تاہم پارٹی کے اندر انتخابات کا منعقدنہ ہونا آئین وقانون کی بڑی خلاف ورزی ہے،کیونکہ انٹرا پارٹی انتخابات میں ووٹ کا حق بھی عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے حق جیسا ہی ہے، عدالت نے قرار دیا ہے کہ یہ معاملہ انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد سے متعلق میں ہے ،ہر سیاسی جماعت کے اندرجمہوری کلچر کو فروغ دینے کے لیے ہر سطح پر انٹرا پارٹی انتخابات کاانعقاد لازمی ہے ،اور یہ انتخابات بھی خفیہ رائے شماری سے ہی ہونے چاہئیں سیاسی جماعتوں کے لیے اپنی اپنی صفوں میں ہی نئی قیادت کو ترقی دینے اور ترقی کرنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع دینا چاہیئے،موجودہ حکمران اشرافیہ اپنی سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد سے جان بوجھ کر گریز کیا کرتے اورپارٹی کومرضی اور من مانے طریقے سے چلا رہے ہیں۔

اہم خبریں سے مزید