اسلام آباد(ایجنسیاں)پاکستان اور ایران نے دہشتگردی کو دونوں ممالک کیلئے مشترکہ خطرہ قرار دیتے ہوئے انٹیلی جنس شیئرنگ سمیت تمام شعبوں میں تعاون بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ فریقین نے وزراء خارجہ کی سطح پر اعلیٰ سطح مشاورتی میکنزم قائم کرنے پر اتفاق کیا ہےجو باہمی تعاون کے مختلف شعبوں میں ہونے والی پیش رفت کا مستقل بنیادوں پر جائزہ لے گاجبکہ تربت اور زاہدان میں فوجی رابطہ افسران تعینات کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے ۔پاکستان کے دورے پر آئے ایرانی وزیر خارجہ امیر عبداللہیان نے پیرکو نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے الگ الگ ملاقاتیں کیں جس میں دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط اور مستحکم بنانے کے عزم کااعادہ کیاگیا۔نگران وزیراعظم نے ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کیلئے نیک خواہشات کا پیغام دیتے ہوئے انہیں جلد پاکستان کے دورہ کی دعوت دیجبکہ نگراں وزیرخارجہ جلیل عباس جیلانی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے حسین امیر کا کہنا تھاکہ پاکستان کی سکیورٹی ایران کیلئے مقدم ہے ‘دونوں ممالک کے مشترکہ سرحدی علاقوں میں ہونیوالی دہشت گردی میں تیسراملک ملوث ہے‘ اس موقع پر جلیل عباسی جیلانی نے کہاکہ دونوں فریق غلط فہمیوں کو بہت جلد دور کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں‘باہمی خودمختاری اورایک دوسرے کا احترام ضروری ہے ۔ تفصیلات کے مطابق انوار الحق کاکڑ سے ایران کے وزیر خارجہ امیر عبداللہیان نے ملاقات کی۔نگران وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں ملکوں کو درپیش چیلنجزسے بالخصوص ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کو باہمی اشتراک اور تعاون کے ذریعے عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت نمٹنا ہو گا۔ علاوہ ازیں جنرل سیّد عاصم منیر سے ایران کے وزیر خارجہ نے ملاقات کی جس میں دونوں فریقوں نے قرار دیا کہ دہشت گردی مشترکہ خطرہ ہے جس سے باہمی تعاون، بہتر کوآرڈی نیشن اور انٹیلی جنس شیئرنگ کے ذریعے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق یہ اعلیٰ سطح ملاقات جی ایچ کیو راولپنڈی میں ہوئی۔ دونوں فریقوں نے مشترکہ خطرات کے خلاف رابطہ کاری اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ایک دوسرے کے ملک میں فوجی رابطہ افسروں کی تعیناتی کے طریقہ کار کو جلد سے جلد فعال کرنے پر اتفاق کیا۔دونوں فریقوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ قریبی رابطے میں رہیں گے اور برادر ممالک کے درمیان کسی کوبھی خلل ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔دریں اثناءجلیل عباس جیلانی نے ایرانی ہم منصب حسین امیر عبداللہیان کے ہمراہ پیر کو یہاں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور ایران نے دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے موجود مضبوط ادارہ جاتی میکانزم کو مکمل طور پر بروئے کار لاتے ہوئے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اجتماعی اور باہمی تعاون پر مبنی نقطہ نظر اپنانے پر اتفاق کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ فریقین نے دونوں ممالک کے وزراء خارجہ کی سطح پر اعلیٰ سطحی مشاورتی میکنزم قائم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ وزیر خارجہ نے دہشت گردی کے حوالے سے ایک دوسرے کے تحفظات کو دور کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے نے کہا کہ اس سلسلے میں دونوں فریقین نے رابطہ افسران تعینات کرنے پر اتفاق کیا ہے، یہ رابطہ افسران تربت اور زاہدان میں تعینات کیے جائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ سرحدی علاقوں کی اقتصادی ترقی کو ترجیح دینے پر بھی اتفاق کیا گیا، ہم نے پانچ باقی ماندہ سرحدی مارکیٹوں کو تیزی سے فعال بنانے پر بھی اتفاق کیا ہے اور یہ سرحدی مارکیٹیں جلد کام شروع کر دیں گی۔ اس موقع پر ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ دونوں ممالک دہشت گردوں کو سرحدی علاقوں کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم تمام دہشت گردوں کو واشگاف الفاظ میں بتائیں گے کہ ہم انہیں اپنی مشترکہ سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کا کوئی موقع فراہم نہیں کریں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں ممالک کے مشترکہ سرحدی علاقوں میں موجود دہشت گردوں کو تیسرے ملک کی حمایت حاصل ہے۔