کراچی (ٹی وی رپورٹ) نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ معیشت نئی حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہوگا اسکے بعد دہشت گردی اسکے بعد جو سیاسی پولرائزیشن ہے اس کو ایڈریس کرنا یہ بڑے چیلنجز ہونگے، نئی حکومت کیلئے اور خارجہ پالیسی پر فوکس کر کے کام کرنے کی ضرورت ہوگی، وفاقی کابینہ نے ایف بی آر میں ری اسٹریکچرنگ منظوری ہوچکی ہے یہ ایک لانگ ٹائم ایشو تھا ماضی کی حکومتوں نے اس سے متعلق کچھ عملدرآمد نہیں کیا تھا، لوگ دعوے کرتے رہےکہ ہم سازش کررہےہیں،انتخابات کا التوا چاہتے ہیں، پاک افغان تعلقات میں جو ایک دوسرے سے توقعات ہیں انکی وضاحت ہونی چاہیے، ٹی ٹی پی والے بھی اگر بغیر کسی شرائط کے سرینڈر کرتے ہیںتو انہیں بھی معافی ملنی چاہیے، پاک افغان تعلقات میں جو ایک دوسرے سے توقعات ہیں انکی وضاحت ہونی چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو نیوز کے پروگرام ’’جرگہ‘‘ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ایک سوال پر نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ایک شکایت یہ بھی تھی کہ الیکشن نہیں کرانا چاہتے ہیں یہ کیوں اتنا کام کرنا چاہ رہے ہیں یہ ایک سازش کا پہلو تھا دوسرا یہ ہے کہ لیول پلائنگ فیلڈ نہیں ملی کچھ جماعتوں یا کچھ افراد کو یہ پہلو بالکل مختلف ہے۔ انہوں نے کہا کہ نگراں حکومت کے تصور کا خاتمہ چاہتے ہیں اس پر بھی غور و فکر ہونا چاہیے قائم رکھنا چاہتے ہیں اسکے مینڈیٹ کو کم کرنا چاہتے ہیں بڑھانا چاہتے ہیں یہ تمام وہ تجاوز ہیں جس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ پختونخوا اور بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے سوال پر انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ خدانخواستہ یہ کہا جاتا تھا کہ پاکستان کی ریاست جان بوجھ کر ایسی صورتحال بنا رہی ہے اور ا سکو جواز بنا کر الیکشن معطل کریگی یہ بات غلط ثابت ہوئی الیکشن ہو رہے ہیں اسکا مطلب ہے جو دہشت گردی کی کارروائیاں تھیں وہ ایسا سنجیدہ چینل تھا جس کو سیاسی تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے تھا۔ اس سوال پر کہ اگر کوئی بلوچ عسکریت پسند سرینڈر ہونا چاہے تو ان کو ریاست ویلکم کرتی ہے سب گناہ معاف کر دیتی ہے لیکن یہاں ٹی ٹی پی کیلئے یہ رعایت نہیں ہے ،انہیں کوئی درمیانی راستہ کیوں نہیں دے رہے۔ انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ اگر بغیر کسی شرائط کے سرینڈر کرتے ہیں کوئی بھی عسکریت پسند اگر وہ رجوع کرنا چاہتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ جس راستے پر تھا وہ گمراہی کی تھی اس کو ترک کر کے واپس آنا چاہتا ہے تو ایسے میں موقع ضرور ملنا چاہیے۔ نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ایران سے متعلق جو آرمی چیف نے جو فیصلہ سازی اور لیڈر شپ اس میں دکھائی بہت زبردست رسپانس پاکستان کی جانب سے دیا اگر نہ دیا جاتا تو ناانصافی ہوتی اسکے بعد جو پوسٹ ایونٹ مینجمنٹ تھی اس میں ٹھوس اقدامات کر کے اور جو ڈپلومیٹک فرنٹ تھااس میں بھی اتنی اہم اور تمام کا تمام de escalationپراسیس مینج کر کے ایران کے ساتھ چیزیں اس سطح پر آگئی ہیں کہ دونوں طرف تعلقات کو بہتر کرنے کا احساس موجود ہے۔ اس سوال پر کہ نگراں حکومت کے دور میں سرمایہ کاری کتنی آئی۔ انوارالحق کاکڑنے کہا کہ ہمارے ایم او یوز تخصیص کے ساتھ یو اے اور کویت کے ساتھ لگ بھگ پینتیس ارب ڈالر کے سائن ہوچکے ہیں اور کویت کے ساتھ بینک ایبل پراسیس کی صورت میں ایگریمنٹ کے اسٹیج پر پہنچ گئے ہیں یو اے ای کے ساتھ پراجیکٹس ڈیزائن ہو رہے ہیں، سعودی عرب اور قطر میں بھی جونہی حکومت کی تشکیل ہوگی وہ اسی تواتر میں شامل ہوجائینگے۔ ایس آئی ایف سی کی بہت سنجیدہ اور تعمیری کوشش شروع ہوئی ہے اور ایز آف ڈوئنگ بزنس ہمیں امید ہے ہم نے جو اپنی طرف سے کام کرنا تھا وہ ہم کرچکے ہیں اس کو لے کر جو منتخب حکومت ہوگی یہ ان کی ذمہ داری ہوگی اور ایک رائے یہ سامنے آرہی ہے کہ جو بھی ایلکٹڈ گورنمنٹ ہوگی آخری کابینہ کا اجلاس ہم ان کے ساتھ مل کر کرینگے اور جو یہ فورم کر چکا ہے وہ ہم تک منتقل کرینگے اور یہ ایک نئی روایت ہوگی۔انوار الحق کاکڑ میں فراغت کے بعد تھوڑے وقت آرام کروں گا اور ظاہر ہے سیاست تو ضرور کروں گا لیکن کس رول میں ہوگی یہ وقت بتائے گا۔