اسلام آباد (فخر درانی) جمعیت علمائے اسلام فضل (جے یو آئی ایف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ اور جنرل (ر) فیض حمید نے پی ڈی ایم جماعتوں سے ملاقات کی اور بتایا کہ عمران خان کے خلاف کیا کرنا ہے۔ تاہم دی نیوز نے26مارچ کو ہونے والی اسی ملاقات کی خبر پانچ روز بعد 2 اپریل 2022 کو دی تھی۔ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے یکم اپریل 2022 کو ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ ان کے سامنے اپوزیشن جماعتوں کے تین آپشن لے کر آئی تھی۔ سابق وزیر اعظم کے مطابق انہیں پیشکش کی گئی تھی کہ یا تو استعفیٰ دیں یا اسمبلیاں تحلیل کریں بصورت دیگر تحریک عدم اعتماد کا سامنا کریں۔ وزیراعظم عمران خان کے اس دعوے کے جواب میں کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ ان کے پاس اپوزیشن کی جانب سے تین آپشن لے کر آئی تھی، ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ذرائع نے بتایا کہ عسکری قیادت اپوزیشن کے آپشنز سامنے نہیں لائی بلکہ سویلین حکومت نے اعلیٰ حکام کو ٹیلی فون کیا اور موجودہ سیاسی منظر نامے پر تبادلہ خیال کے لیے ملاقات کی درخواست کی تھی۔ ذرائع نے بتایا کہ حکومت کی درخواست پر بدھ کی شام وزیراعظم عمران خان سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی نے ملاقات کی۔ ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ ملاقات میں سویلین اور عسکری قیادت کے درمیان تین آپشنز پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک جمع کرانے کے بعد تین دستیاب آپشنز جن پر حکومت اور فوج کے درمیان باہمی طور پر تبادلہ خیال کیا گیا وہ تھے ʼعدم اعتماد کی تحریک کا سامنا، ʼاستعفیٰ یا ʼاسمبلی تحلیل کرنا۔ تاہم عسکری ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم نے پہلے دو آپشنز کو مسترد کر دیا اور تیسرے پر اتفاق کیا جو ان کے مطابق قابل عمل تھا۔ عسکری ذرائع نے مزید بتایا کہ وزیر اعظم کے ساتھ باہمی بات چیت کے بعد چیف آف آرمی اسٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی دونوں نے اسی دن اپوزیشن کی قیادت سے ملاقات کی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور سویلین قیادت کے درمیان زیر بحث تین آپشنز سے آگاہ کیا۔ لیکن اپوزیشن نے اسمبلی تحلیل کرنے سمیت ان آپشنز کو مسترد کر دیا۔ عسکری قیادت نے اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کو مزید آگاہ کیا کہ وہ ان سے ملاقاتیں سیاسی معاملات میں مداخلت کے لیے نہیں کر رہے بلکہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ باہمی طور پر زیر بحث تین آپشنز سے آگاہ کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔ ایک باخبر ذریعے نے دی نیوز کو مزید بتایا کہ اسٹیبلشمنٹ کسی کا ساتھ نہیں دے گی، غیر جانبدار رہے گی بلکہ وزیراعظم عمران خان اور اپوزیشن لیڈر دونوں کو بیٹھ کر بہتر مستقبل، مضبوط معیشت اور ملک کے سیاسی استحکام پر بات کرنے کی ترغیب دے گی۔