میزبان: محمد اکرم خان ،ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ : سلیم اللہ صدیقی
تصاویر : شعیب احمد
سید شبر زیدی، سابق چیئرمین، فیڈرل بورڈ آف ریونیو، پاکستان ( ایف بی آر)
ثاقب فیاض مگوسں (قائم مقام صدر، فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس
اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی)
زبیر طفیل (سابق صدر، ایف پی سی سی آئی)
میاں زاہد حسین (سابق چیئرمین، کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری)
ہمیں ایف بی آر اس لیے نظر آتا ہے کیوں کہ ان کاکام ٹیکس وصول کرنا ہے، پاکستان کا پورا نظام ہی انحطاط پذیر ہے ایف بی آر بھی اس کا ایک حصہ ہے، پاکستان میں بیوروکریسی کا جو نظام چل رہا ہے، نوآبادیاتی حکم رانوں سے لیا ہے، ہم نے اس میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں کی، صرف ایف بی آر نہیں پورا گورنس سسٹم تبدیل کرنے کی ضروت ہے، میں ایف بی آر ری اسٹرکچرنگ کے دونوں پروپوزل کی حمایت کرتا ہوں۔ عوامی نمائندوں اور پارلیمنٹ کی کمزوری ہے کہ وہ کوئی پلان نہیں دے پاتے،ٹیکس پالیسی بورڈ کا صرف یہ کام ہونا چاہیے وہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی کو پالیسی دیں کمیٹی اس پر کام کریں، ایف بی آر کےپاس پالیسی نہیں ہونی چاہیے
سید شبرزیدی
ایف بی آر میں ری اسٹرکچرنگ ہورہی ہے،نئی حکومت آنے والی ہے اور توقع ہے کہ وہ پانچ سال پورے کرے گی ا یہ معاملہ اس پر چھوڑ دینا چاہیے۔کاروباری برادری کا اختلاف ٹیکس وصولی پر نہیں ہوتا ہے،وہ ان سےذاتی ٹیکس پر جھگڑا کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں تمہیں جتنا ٹیکس دینا ہےدو جو ہمیں دینا ہے اس کی بات کرو، اسی وجہ سے ٹیکس کی جی ڈی پی شرح دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے۔ یہاں ادارہ ایف بی آر ناکام ہے ریاست ناکام نہیں ہوئی ہے۔ ریاست کی توخواہش ہے کہ دس ہزار ارب کے بجائے پندرہ ہزار ارب جمع ہوں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ چھوٹے تاجروں سے بات کرے جن کی تعداد چالیس لاکھ سے زائد ہے،جس کے پیچھے ایس آئی ایف سی بھی بیٹھے
زبیر طفیل
کاروباری افراد ایف بی آر کی کارکردگی سے کبھی بھی مطمئن نہیں ہوئے، بزنس مینوں کے بہت مسائل ہیں، ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی مزید کم ہوکر 8 اعشاریہ پانچ فیصدپر ہے، کئی شعبےجس میں تاجر اور پروفیشنل شامل ہیں ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ پاکستان کا ٹیکس پوٹینشل 22ہزار ارب ہے ہم ابھی 9ہزار چارسوارب جمع کررہے ہیں،ایف بی آر سے بڑی شکایت یہ کہ وہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کے بجائے ٹیکس کلیکشن بڑھانے کی طرف ہی رہتا ہے، ایف بی آر کی ری اسٹرکچرنگ ہونا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ریفارمز ضروری ہے،جو لوگ بھی کاروبارکرتے ہیں انہیں رجسٹرڈ ہونا چاہیے، فائلر اور نان فائلر کی اصطلاح ختم ہونی چاہیے
میاں زاہد حسین
ایف بی آر کی تقسیم اور اس میں اصلاحات کی خبریں مل رہی ہیں،یہ کیوں ہورہا ہے اس کے فوائد کیا ہوں گے کچھ نہیں معلوم ،جب تک ایسے فیصلوں میں تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت نہیں ہوگی تو کوئی بھی پالیسی ٹھیک سے مرتب نہیں ہو سکتی۔ جب لوگ ٹیکس نیٹ میں نہیں ہوتے تو بلیک منی جنریٹ ہوتی ہے، ہمیں بلیک منی استعمال کی حوصلہ شکنی کرنے پڑے گی لیکن ہم نے بلیک منی کو پراپرٹی میں پارک کرنے کا موقع دے رکھاہے، ہم پراپرٹی کی حقیقی قیمت کیوں نہیں رکھتے۔بینک میں کالادھن نہیں رکھا جاسکتا،لاکر ز میں ایک حد تک بلیک منی ہی رکھی جاسکتی ہے صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے پراپرٹی
ثاقب فیاض مگوں
ایف بی آر میں اصطلاحات اورری اسٹرکچرنگ کرنے کا کہا جارہا ہے۔ اس میں حیرانی یہ ہے کہ یہ نگراں حکومت کے دور میں یہ بات ہوئی ہےجو جانے والی حکومت ہے،آج کی گفتگو میں یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ کسی نگراں حکومت کو بنیادی فیصلہ کرنے کا اختیار ہے یا نہیں ہے اور آخروہ کیا وجوہات ہیں جو ایف بی آر کی ری اسٹرکچرنگ کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ایف بی آر اب تک جی ڈی پی کے مطابق شرح ٹیکس بڑھانے اور ٹیکس کا دائرہ بڑھانےمیں ناکام ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارے وسائل محدود ہیں، اصطلاحات کی ضرورت اسی وجہ سے محسوس ہورہی ہے۔
خبروں کے مطابق ایف بی آر کے دوحصے کئےجائیں گے،کسٹم علیحدہ اوران لینڈ ریونیو کو علیحدہ کردیا جائے گا، دونوں ونگ وزارت خزانہ کے ماتحت ہوں گے لیکن بورڈ الگ ہوں گے۔جنگ فورم میں گفتگو میں ایسی تجاویز بھی سامنے لانے کی کوشش کریں گے جس سے ایف بی آر اپنا ٹیکس ریونیو اور ٹیکس نیٹ بڑھا سکے۔
ہمارے ساتھ شریک گفتگو ہیں سید شبر زیدی نامور ٹیکس ماہراور سابق چیئرمین ایف بی آر،ثاقب فیاض مگوں (قائم مقام صدر، فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) اور زبیر طفیل (سابق صدر، ایف پی سی سی آئی) اور میاں زاہد حسین (سابق چیئرمین، کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری) ہیں،اپنی گفتگو کا آغازسید شبر زیدی سے کریں گے۔
جنگ: ایف بی آر میں اصلاحات لانے کی کیا وجوہات ہیں اور اس کے اہداف کیا ہوں گے؟
شبرزیدی: اصلاحات لانے کی بنیادی وجہ تو ناکامی ہےلیکن میں سمجھتا ہوں ہم ایف بی آر کی ناکامی کوغلط پیمانے سے ناپتے ہیں، اگر یہ سمجھ لیں کہ ایف بی آر ناکام ہوگئی ہے،تو کیا یہاں آئین کامیاب ہوگیا ہے۔ کیا قانون نافذ کرنے والے ادارے کامیاب ہوگئے ہیں،کیا سول انڈسٹری لائزیشن کامیاب ہوئی، کیا جیوڈیشری کامیاب ہے، ہمیں ایف بی آر اس لیے نظر آتا ہے کیوں کہ ان کاکام ٹیکس وصول کرنا ہے۔ دراصل پاکستان کا پورا نظام ہی انحطاط پذیر ہے اور ایف بی آر بھی اس کا ایک حصہ ہے، لہذا ایف بی آر کو ناکام کہنا تھوڑا سا غلط ہے، پاکستان میں جو نظام حکومت بیوروکریسی کا چل رہا ہے، جسے نوآبادیاتی حکمرانوں سے لیا ہے،ہم نے اس میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں کی، صرف ایف بی آر نہیں پورا گورنس سسٹم ہی تبدیل کرنے کی ضروت ہے۔
میں ایف بی آر ری اسٹرکچرنگ کے دونوں پروپوزل کی حمایت کرتا ہوں۔اس میں دو بنیادی تبدیلیاں کی جارہی ہیں، پہلی ٹیکس پالیسی چاہے وہ کسٹم کی ہو یا آئی آرایس یعنی سیلزٹیکس وغیرہ، اسے یوں سمجھیں کہ پالیسی ایف بی آر بلڈنگ سے نکل کر دوسرے بلاک Qمیں چلی جائے گی۔جب پالیسی Q بلاک میں چلی جائے گی تواس کا آزاد بورڈ ہوگا اور وہ ٹیکس پالیسی کو دیکھے گا۔میری اس بات پر ایک ٹوئیٹ ہے کہ وہ بھی پالیسی بنانے والے نہیں ہیں پالیسی پارلیمنٹ بنائے گی۔
ہمارے عوامی نمائندوں اور پارلیمنٹ کی کمزوری ہے کہ وہ کوئی پلان نہیں دے پاتے،جس کے نتیجے میں پالیسیاں بیوروکریسی کو منتقل ہوجاتی ہیں۔ ٹیکس پالیسی بورڈ کا صرف یہ کام ہونا چاہیے کہ وہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی کو پالیسی دیں کمیٹی اس پر کام کریں،میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ایف بی آر کے پاس پالیسی نہیں ہونی چاہیے۔ دوسری بات کسٹم اور آئی آر ایس (سیلزٹیکس )کو علیحدہ کرنے سے متعلق ہے۔ یہ بھی ایسا ماڈل ہے جو دیگر جگہ چل رہے ہیں، انگلینڈ میں پہلے ایچ ایم کسٹم ہوا کرتا تھا اب انہوں نے اسے ایچ ایم آرسی کردیا ہے، ہرزمیجسٹی ریونیواینڈ کسٹم انہوں نے اسے ملادیا ہے، اسی طرح انڈیا میں بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکسس اور ان ڈائریکٹ ٹیکسس ہے یہ دونوں ماڈل چلتے ہیں، اس طرح چلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ہماری ناکامی کی وجوہات میں جیساکہ کسٹم والوں کو ایف بی آر میں لگا دیا گیا تو انہوںنے کسٹم والا کام چھوڑ دیا ان کا کام انسداد اسمگلنگ ہے، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی مینجمنٹ ہے،کسٹم کبھی بھی ریونیو وصول کرنے والا ڈیپارٹمنٹ نہیں ہوتا، وہ بنیادی طور پر اینٹی مینجمنٹ ہے۔ اس طرح یہ دونوں علیحدہ کیے جارہے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں اسے ہونے دیں ۔ کیوں کہ دونوں کا مائنڈسیٹ الگ ہیں وردیاں الگ ہیں، کسٹم لا انفورسمنٹ ایجنسی ہےلیکن آئی آر ایس میں وردی نہیں ہے۔ میں بار بارایک بات کا ذکر کرتا ہوں، ہمیں آج کے دور میں ایف بی آر میں 23ہزار اسٹاف نہیں چاہیے، زیادہ سے زیادہ چھ سے سات ہزارکا اسٹاف درکار ہے۔ زیادہ اسٹاف سے کرپشن جنم لے رہی ہے ایف بی آر میں جو بنیادی کام کرنا چاہیے اس میں ان لوگوں کی ایف بی آر میں مداخلت کم کریں۔
جنگ: آپ نے پالیسی بناناپارلیمنٹ کی ذمہ داری کی بات کی ہے لیکن ابھی نگراں حکومت ہے، شمشاد اختر ہو یا نگراں وزیراعظم دونوں غیر منتخب ہیں، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے بھی اس کی مخالفت کی ہے آپ کی اس پر کیا رائے ہے۔
شبرزیدی: یہ مینڈیٹ نگراں حکومت کا نہیں ہے، نگراں حکومت نے بہت سے کام بالکل ٹھیک کئے جسے ایس آئی ایف سی نے بھی منظور کیا ہے۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ نگراں حکومت کے جانے کا وقت قریب ہےایک ماہ بعد نئی حکومت آجائے گی تو ان کی اونر شپ ہوجائے گی، یہ کام آنے والوں کو اسے کرنے دیں،لیکن یہ کام ہونا چاہیے اور اسے ہونا ہے۔
جنگ: کیا وجہ ہے ہمارا جی ڈی پی ریشو آج بھی سنگل ڈیجیٹ پر ہے اور ایف بی آر اپنا ٹیکس نیٹ نہیں بڑھاسکی ؟
شبرزیدی: ہمارے پاس ڈیٹا بیس نہیں ہے اور نہ ہی ڈیٹا انٹی گریشن ہے،دنیا میں کہیں بھی کوئی آدمی ٹیکس وصولی نہیں کرتا سسٹم سے وصول ہوتا ہے۔اگر مجھے یہ معلوم ہی نہیں کہ ڈیفنس میں اس مہینے کتنے پلاٹ فروخت ہوئے ہیں اور ان کی رجسٹریاں کس قیمت پر ہوئی ہیں اور خریدنے والے کی ریٹرنز آئے ہیں کہ نہیں،تو کسی آفسر کو ڈنڈا دے کر کچھ بھی نہیں ہوسکتا، ہمارا نظام جدید دور میں بھی آٹو نہیں ہے۔
جس ری اسٹرکچرنگ کی بات ہورہی ہے اس سے پہلے حکومت ایک قانون لے کر آئی،ایف بی آر نے ایس آر اوز جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ہم 148 محکمے جس میں ڈی ایچ اے شامل ہے،ان کا ریکارڈ رئیل ٹائم میں ایف بی آر کے ساتھ انٹی گریٹ کردیں گے، میں نے اس پر بھی کہا تھا کہ اس ملک میں ایسا نہیں ہوسکتا،اور پھر اگلے تین چار دن کے بعد آگیا کہ یہ نہیں ہوگا۔پاکستان میں اگر ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ہے تو 148 محکموں کی انفارمیشن انٹی گریٹ کردیں،ٹیکس نیٹ بڑھے گا۔
جنگ: بطور کاروباری آپ کا ایف بی آر سے تجربہ کیسا ہے ان میںکیا خامیاں یا کرپشن دیکھتے ہیں اس میں کیسے بہتری ہوسکتی ہے اور جن اصلاحات کو کرنے جارہے ہیں اس کے لیے آپ کیا تجاویز دیں گے؟
میاں زاہد حسین: اگر پچھلے تیس چالیس سالوں کا جائزہ لیں توکاروباری افراد ایف بی آر کی کارکردگی سے کبھی بھی مطمئن نہیں ہوئے، بزنس مینوں کے بہت سارے مسائل ہیں،ٹیکس ٹو جی ڈی پی ہے یا ٹیکس نیٹ ،یہ آخر کیوں نہیں بڑھ رہا۔ ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی مزید کم ہوکر 8اعشاریہ پانچ فیصدپر ہے۔ ہم ایک دائرے میں گھوم رہےہیں، اسی وجہ سے ہمارا ٹیکس نیٹ بھی نہیں بڑھتا، بہت سارے شعبےجس میں تاجر اور پروفیشنل شامل ہیں ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں وہ ٹیکس دینے کو بھی تیار نہیں ہیں۔
ہمارا ریونیو جو وصولی ہونا چاہے وہ 14ہزار ارب ہیں۔ کچھ سرکاری ادارے کہتے ہیں کہ پاکستان کا ٹیکس پوٹینشل وہ 22ہزار ارب ہے،جب کہ ابھی ہم 9ہزار چارسوارب جمع کررہے ہیں۔اگر ہمارے مطابق چلیں توہماری معیشت کے سائز کے مطابق چارہزار ارب مزید وصول کرنے کی گنجائش ہے۔ جب کہ دوسرا نقطہ نظر کے مطابق ہمارا 22ہزار ارب پوٹینشل ہے ، اس طرح ہم 13ہزار ارب کم ٹیکس وصول کررہے ہیں یعنی ہرصورت میں ٹیکس کم ہی جمع ہورہا ہے جس کی وجہ سے ہماری ترقی کا سفر نہیں چل رہا ۔جس تیزی سی ہماری آبادی میں اضافہ ہورہا ہے ،ہماری آمدنی نہیں بڑھ رہی جس کی وجہ سے ہرآنے والے بچے کو جو سہولت ہمیں دینی چاہیے جس میں تعلیم صحت امن و امان وغیرہ شامل ہیں ہماری ریاست کم وسائل ہی کی وجہ سے یہ دینے میں ناکام ہے۔
جنگ: ایف بی آر کی خامیاں کیا ہیں اور ان سے کیا شکایات ہیں؟
میاں زاہد حسین: ایف بی آر سے بڑی شکایت یہ ہے کہ وہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کے بجائے ٹیکس کلیکشن بڑھانے کی طرف ہی رہتا ہے جولوگ ٹیکس نیٹ میں ہیں ان ہی سے مزید پیسے ٹیکس بڑھا کر لینے کی کوشش کرتا ہے، اس میں ان کے ٹولزآڈٹ وغیرہ جو کاروباری برادری کے خلاف بڑا ہتھیار ہے اسے استعمال کرتے ہیں۔ جو لوگ ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں ان کابھی یہ ہی کہنا ہے کہ ایف بی آرکے خوف زدہ کرنے والے ٹولز سے لوگ گھبراتے ہیں۔اگر کسی کو بہ مجبوری رجسٹر ہونا پڑجائے تو لوگ اس کے پاس تعزیت کےلیے بھی چلے جاتے ہیں۔
جنگ: آپ کے خیال میں ایف بی آر لوگوں کےلیے خوف کی علامت ہے؟
میاں زاہد حسین: جی ہاں یہ ادارہ خوف کی علامت ہی بناہوا ہے،جب تک خدمت کی علامت نہیں بنایا جائے گا،جب لوگ یہ سمجھیں کہ یہ ادارہ ہمارے کاروبار میں معاونت کےلیے ہے، اگر یہ معاونت کریں لوگوں کے کاروبار پھلے پھولیں تو لوگ ٹیکس دینے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔لیکن اگر یہ منی ایکسٹورشن ہو زبردستی کی جائے اس میں رشوت کا پہلو بھی شامل ہو اور خوف کا پہلو بھی ہوتو ان حالات میں معاشرہ ترقی نہیں کرتا، اسی وجہ سے کاروباری برادری شک و شبہات کا شکار رہتی ہے۔
جہاں تک ایف بی آر کی ری اسٹرکچرنگ کی بات ہے، اسے ہونا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ہی ریفارمز بھی ضروری ہے، ہونا یہ چاہیے کہ جو وصولیاں ہیں وہ صاف ستھرے طریقے سے ہوں اس میں لوگوں کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے، اس میں جو طبقات اپنے اثرو رسوخ یا کسی اور وجہ سے ٹیکس نیٹ سے نکل گئے ہیں انہیں قابوکیا جائے، جب تک یہ نہیں ہوگا یہ کاروبار دوست ادارہ نہیں بنایا جائے گا،پاکستان میں ٹیکس وصولیوں میں اضافہ ممکن نہیں۔ آٹو میشن بہت ضروری ہے، اگر ہم مینول طریقے سےکام کرتےرہیں گے جیسا کہ سسٹم میں دوچیزیں رکھی گئیں ہیں ایک رجسٹرڈ اور دوسرا ان رجسٹرڈ،ان رجسٹرڈ کی اصطلاح ختم کرنی چاہیے، جو لوگ بھی کاروبارکرتے ہیں انہیں رجسٹرڈ ہونا چاہیے،فائلر اور نان فائلر کی اصطلاح بھی ختم ہونی چاہیے۔
ہر شخص کو فائلر ہونا چاہیے۔ہرطرح کی لازمی ٹرانزیکشن بینک کے ذریعے یا کارڈ کے ذریعے ہونی چاہیے،بغیر کھاتے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، کیوں کھربوں روپے کی ٹرانزیکشن بغیر کسی ریکارڈ کے ہوتی ہیں۔ اگر ہم اس پر قابوپانے میں کامیاب ہوگئے تو حکومت کو بہت زیادہ آمدنی حاصل ہوسکتی ہے۔اس وقت مرکزی مسئلہ ٹیکس وصولی ہے ہمارا 70فیصد ان ڈائریکٹ ٹیکس وصول ہورہا ہے، حکومت کو اس طرح پیسے تومل رہے ہیں ان کا مالیاتی ہدف بھی پورا ہوجاتا ہے۔ لیکن اس طرح سے مہنگائی بڑھتی ہےکیوں کہ یہ ٹیکس لوگ اپنی اخراجات میں ڈال دیتے ہیں۔
لیکن ڈائریکٹ ٹیکس جیسے انکم ٹیکس وغیرہ وہ لوگوں کی انکم پر ہوتا ہے، جتنے پیسے آپ نیٹ پرافٹ کریں گےاس میں سے ٹیکس دینا ہوگا، اسے اخراجات پر ایڈجسٹ نہیں کرسکتے۔ پاکستان میں غربت کی بنیادی وجہ بھی ان ڈائریکٹ ٹیکس ہے ہم نے ہرشخص پر ٹیکس لگادیا ہے، ہم نے سیلزٹیکس لگایا ہے جو 17سے 18فیصد ہوگیا ہے۔ود ہولڈنگ یا کسٹم ڈیوٹی یہ امپورٹ پر پہلے لے لیتے ہیں۔ حکومت کو محصول تو مل رہا ہے، لیکن وہ بھی پورا نہیں ملتا جیساکہ ابھی پھر منی بجٹ آنےکی خبریں آرہی ہیں۔ ہمارا65فیصد آمدن وصولی ان ڈائریکٹ ٹیکسوں سے ہے ہمیں یہ ختم کرکے اسے ڈائریکٹ ٹیکس کی طرف جانا چاہیے۔ اس طرح کی اصلاحات کی ضرورت ہے۔
ان اصلاحات سے کاروبار کرنے میں آسانی رہے گی، حکومت ونڈ فال پر پرافٹ لیتی ہے اس میں بھی دو رائے ہے۔ لوگ پرافٹ کمائیں گے تو نئے ادارے بنیں گے۔حکومت ری اسٹرکچرنگ کے پروپوزل کوجب کابینہ میں لے کر گئی تووہاں بھی کچھ وزرا نےاعتراض کیا ہے۔ اسے کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس موقع پر نہیں کیوں کہ ابھی ہماری پارلیمنٹ موجود نہیں ہے لہذا اخلاقی طور پر یہ نہیں کرنا چاہیے نئی اسمبلی آئے گی وہاں اس بل پر گفتگو ہو وہی بل پاس کرے۔ ایف پی سی سی آئی ملک میں ٹریڈ اور انڈسٹری کا سب سے بڑا ادارہ ہے حکومت نے اس سے بھی کوئی رائے نہیں لی ہے، ایف پی سی سی آئی کو بھی مشاورت میں شامل کرنا چاہیے۔
جنگ: ایف بی آر کی ری اسٹرکچرنگ اور اصلاحات کے حوالے سے حکومت نے ایف پی سی سی آئی سے کسی قسم کی رائے لی ہے۔
ثاقب فیاض مگوں: ہمیشہ کی طرح ہم سے اس مرتبہ بھی کوئی فیڈبیک نہیں لی گئی نہ ہی مانگی گئی ہے۔کسی آفیشل ذرائع سے نہیں بتایاگیا ہمیں اخبارات سے معلوم ہوا ہے۔ اس ڈر سے ہم نے خود بھی نہیں پوچھاکہ جواب میں ہم سے یہ سوال نہ کرلیں کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا۔ ہمیں دیگرذرائع سے ایف بی آر کی تقسیم اور اس میں اصلاحات کی خبریں مل رہی ہیں،یہ کیوں ہورہا ہے اس کے فوائد کیا ہوں گے کچھ نہیں معلوم ،ہمیں اس معاملے پر تنازعات کی خبریں سننے کو مل رہی ہیں کچھ کہہ رہیں کیا جائے کچھ کو اس پر اعتراض ہےکچھ لوگ کورٹ بھی چلے گئے ہیں۔
ایف بی آر میں خود اس فیصلے پر مزاحمت کا سامنا ہے۔جب تک ایسے فیصلوں میں تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت نہیں ہوگی تو کوئی بھی پالیسی ٹھیک سے مرتب ہوہی نہیں سکتی۔ کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے کاروبار کو کس طرح کی مشکلات کاسامنا ہے،ایف بی آر کوحکومت کتنے حصوں میں بھی کرے ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ۔ہم تو یہ کہتے ہیں کہ خدا کےلیے ایف بی آر اپنا ٹیکس نیٹ بڑھائے۔ حکومت نےہمیں ودہولڈنگ ٹیکس کا ایجنٹ بنا دیا ہے ہم سے کہا جاتا ہے کہ ٹیکس لو،کہیں سے ٹیکس نہیں ہو اتو ہمارے پاس نوٹس آتا ہے کہ یہ ٹیکس آپ کو اپنے ایجنٹ سے لینا تھا جو نہیں لیا،ایف بی آر کا کام بھی اس طرح ہم سے کروایا جاتا ہے۔
اس طرح یہ کام نہیں چل سکتا، سی این آئی سی میں ہرچیز موجود ہے کہ کہاں سفر کیا، میرا بچہ کون سے اسکول میں پڑھتا ہے، میں نے کہاں پراپرٹی لی،یا کوئی اور سرمایہ کاری کی،ٹیکس نیٹ میں میرا بجلی کا بل کتنا ہے،میں کتنا خرچ کررہا ہوں اس طرح میری ہرچیز حکومت کے پاس موجود ہے۔اس کے بعد بھی حکومت یہ کہے کہ ہم سب کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لاسکتے یہ میری سمجھ سے باہر ہے۔ ہمارا مطالبہ ہی یہ ہے کہ سب کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے اور یہ کام صرف حکومت کا ہے۔جب لوگ ٹیکس نیٹ میں نہیں ہوتے تو بلیک منی جنریٹ ہوتی ہے، ہمیں بلیک منی استعمال کی حوصلہ شکنی کرنے پڑے گی۔لیکن ہم نے بلیک منی کو پراپرٹی میں پارک کرنے کا موقع دے رکھاہے۔
ہمارا مطالبہ یہ بھی ہے کہ ہم پراپرٹی کی حقیقی قیمت کیوں نہیں رکھتے۔بینک میں کالادھن نہیں رکھا جاسکتا، لاکر ز میں ایک حد تک بلیک منی ہی رکھی جاسکتی ہے صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے پراپرٹی۔ لوگ جانتے ہیں کہ کس علاقے کی اصل مارکیٹ ویلیو کیا ہے تو کیا یہ ایف بی آر کو نہیں معلوم،جب پراپرٹی کی اصل قیمت سامنے آجائے گی تو اس میں سرمایہ کاری کم ہوجائے گی پھر یہ سرمایہ انڈسٹری میں لگے گا۔
ہمیں ایسی ایمنسٹی دیں کہ وہ رقم انڈسٹری میں لگے اور انڈسٹری لائزیشن ہو۔ پراپرٹی کی قیمت کم ہونے سے مہنگائی بھی کم ہوگی ،انڈسٹری بڑھے گی توروزگار کے مواقع بڑھیں گے۔لیکن نہیں معلوم وہ ایسی کون سی وجوہات ہیں یا معلوم نہیں کن لوگوں کو اس میں فائدہ ہے جو اب تک یہ کام نہیں ہوا ہے۔کوئی پالیسی، ری اسٹرکچرنگ، ریفارمزسے پہلے ہم سے پوچھ لیا جائے وہ بہتر ہوگا،ایف پی سی سی آئی کو اس میں شامل کریں تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کریں تاکہ صحیح پالیسی مرتب کی جاسکے۔
جنگ: آپ کو ایف بی آر سے کن مسائل کا سامنا ہے، کسی پالیسی میں اگر حکومت آپ کو اعتماد میں نہیں لیتی تو اس طرح ایف پی سی سی آئی بھی اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام نظر آتی ہے؟
زبیر طفیل: ہمیں بھی اخبارات کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ ایف بی آر میں ری اسٹرکچرنگ ہورہی ہے،بنیادی طور پر میں بھی ری اسٹرکچرنگ کرنے کی حمایت کرتا ہوں،لیکن ساتھ ہمارا یہ اعتراض ہے کہ اس حوالے سے ہم سے بھی رائے لیں،حکومت بات چیت کی طرف کبھی نہیں آتی۔ ابھی پارلیمنٹ بھی نہیں ہے لہذا کوئی اہم فیصلہ نہیں ہونا چاہیے۔ نئی حکومت آنے والی ہے اور توقع ہے کہ وہ پانچ سال پورے کرے گی ا یہ معاملہ اس پر چھوڑ دینا چاہیے۔
آج سے چند سال پہلے ٹیکس ٹو جی ٹی پی ریشو ایک دو سال تو ڈبل ڈیجیٹ 12فیصد تک بھی آیا ہے،اس کے بعد کم ہوتا ہوا اب سنگل ڈیجیٹ قریبا 9فیصد پر ہے،ٹیکس آمدنی میں کمی آنا اچھی بات نہیں ہے،لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑا حصہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہے یہ لوگ خوش حال بھی ہیں لیکن انہیں ایف بی آر بھی نہیں پوچھتا وہ صرف ٹیکس نیٹ میں شامل لوگوں کو وچھتا ہے، کاروباری برادری کا اختلاف ٹیکس وصولی پر نہیں ہوتا ہے، وہ ان سےذاتی ٹیکس پر جھگڑا کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں تمہیں جتنا ٹیکس دینا ہےدو جو ہمیں دینا ہے اس کی بات کرو،اسی وجہ سے ٹیکس کی جی ڈی پی شرح دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے۔ ہمارا ٹیکس تو جی ڈی پی اس ریجن میں سب سے کم ہے۔انڈیا کا 16سے 17فیصد ہے اور ہم آٹھ اعشاریہ پانچ سے نو کے قریب ہیں، ہمیں اس کا جائزہ لینا چاہیے۔
یہاں ادارہ ایف بی آر ناکام ہے ریاست ناکام نہیں ہوئی ہے۔ ریاست کی تو خواہش ہے کہ دس ہزار ارب کے بجائے پندرہ ہزار ارب جمع ہوں جوایف بی آر کرنے میں ناکام ہے۔ جو نئی حکومت آئے وہ ہی کچھ کرسکتی ہے وہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے سختی سے عمل کرائے۔ اس کے ساتھ ایس آئی ایف سی بیٹھا ہے اس کا ڈنڈا بھی چلنا چاہیے، قوم اور ادارے ڈنڈے کے بٖغیرنہیں چلتے، ہمیں تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی ضرورت کےلیے بہت پیسے چاہیے۔کم وسائل ہی کی وجہ سے آج کے دور میں بھی پاکستان کے ڈھائی کروڑ بچے اسکول سے باہر ہیں سوچیں آنے والے وقت میں یہ کیا کریں گے۔
جنگ: ایف بی آر اپنی ٹیکس وصولی کا ہدف کبھی پورا نہیں کرپاتا اس مرتبہ بھی کم وصولی کی اطلاعات ہیں، اسی لیےمنی بجٹ آرہا ہے جس میں 216 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگنے کی خبریں ہیں اگر پالیسی بہتر نہیں ہوگی تو ری اسٹرکچرنگ سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔
زبیرطفیل: ٹیکس نیٹ بڑھائے بغیر معاملہ آگے نہیں بڑھے گا،جو ٹیکس نیٹ میں نہیں ہے ان کے بیرون ملک سفر پر پابندی لگائی جائے۔
جنگ: فائلر اور نان فائلر ہے کیا ۔یہ تو کالادھن کا راستہ ہے ؟
شبر زیدی: پاکستان میں 30لاکھ سے زائد انڈسٹریل کمرشل گیس کنکشن ہیں،جب ہیں تو انہیں سیلز ٹیکس میں رجسٹر ہونا چاہیے ،ٹیکس قانون کے مطابق جو بھی انڈسٹریل گیس کنکشن ہو گا اسے سیلزٹیکس میں رجسٹر ہوناچاہیے، میں نے بحشییت چیئرمین ایف بی آر تمام ڈسکوز کو بشمول کے الیکٹرک خط لکھا آپ کے کنزیومر کے پاس سیلزٹیکس رجسٹر ہونا چاہیے۔ان کا جواب تھا ہمارے پاس چند ایک کے سوا کسی کنزیومر کا شناختی کارڈ نہیں ہے، میٹر کسی اور کے نام ہے اور بجلی کوئی اور استعمال کررہا ہے۔ ایف بی آر نہیں ڈسکوز، ایس این جی پی ایل بھی کرپٹ ہیں۔
میں یہ مسئلہ کابینہ میں لے کرگیا تھا تومجھے وہاں سے کاروباری حضرات کا جواب ملا کہ ہمیں یہ ڈسٹربنس نہیں کرنی کیوں کہ اس طرح پاکستان بھر کی بزنس کمیونٹی پریشان ہوجائے گی جو ہم نہیں کرسکتے۔اس طرح صرف ایف بی آر کرپٹ نہیں ہےڈسکوز بھی کرپٹ ہیں کیوں انہوں نے بھی قانونی تقاضے پورے نہیں کیےاگر ایف بی آر کے الیکٹرک سمیت تمام ڈسکوز ،ایس ایس جی سی ،ایس این جی ایل کو یہ کہتی ہے کہ بغیر این ٹی این والے تمام کنکشن کاٹ دے تو کیا وہ یہ کریں گے ۔یہ ناممکن ہےسب ان کے خلاف کھڑے ہوجائیں گے۔
پاکستان کےکون سے سرکاری محکمے کا آدمی بغیر پیسے لیے کام کرتاہےاگر نہیں تو ایف بی آر سے ایسی امید کیوں رکھی جارہی ہے۔ جہاں تک پراپرٹی پارک کا معاملہ ہے اپنے دور میں پراپرـٹی ویلیویشن سو فیصد کی تو میرے پاس ہزاروں درخواستیں چیمبروں کی جانب سے آئیں خاص طور پر لاہور سے،ان کا کہنا تھا کہ ہماری ویلیویشن ایکچوئل سے زیادہ ہے۔ ہمیں ٹرانزیکشن ویلیو کی طرف جانا پڑےگا،انڈیا میں قانون ہے جو پراپرٹی خریدتا ہے اور حکومت انڈیا کے پاس یہ حق ہے وہ اسے دس فیصد زیادہ دے کر وہ پراپرٹی خرید لے اس وجہ سے وہاں کوئی شخص کم قیمت رکھتا ہی نہیں ہے۔انڈیا نےاب دوسال پہلے یہ قانون بھی ختم کردیا ہے اور اب وہاں پراپرٹی پر پری ایمپٹیورائٹ ہے، اگر حکومت کو یہ محسوس ہوا کہ لگائی گئی قیمت غلط ہے تو حکومت اسے خرید لے گی۔
ہم نے بھی اپنے دور میں اس پروپوزل کو پیش کیا جس پر اسلامی نظریاتی کونسل اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ غیراسلامی ہے۔ میں اتفاق کرتا ہوں کہ پاکستان میں پارکنگ لاٹ پراپرٹی ہے، ہمیں اس کےلیے انڈیا جیسے پری ایمپٹیولا لانے کی ضرورت ہے۔ آپ یہ بتادیں کہ اگر آپ نے پراپرٹی انڈرویلیوکی تو اس پرہمارا حق بن جائے گا۔ انگلینڈ ،نیویارک ،ممبئی پیرس میں پراپرٹی دستاویز پبلک دستاویز ہے ابھی لندن رجسٹری کھولیں معلوم چل جائے گا لندن کی پراپرٹی کی ویلیو کیا ہے یہ کتنے میں فروخت ہوئی تھی پاکستان میں کیوں نہیں ہے۔ ہمیں سارے نظام کی اووہالنگ کرنی پڑے گی جس میں سب کی شراکت اور ہمت چاہیے۔
جنگ: ٹیکس نیٹ سے باہر لوگوں کو کیسے اندر لایاجائے؟
شبرزیدی: بنیادی طور پر تین آدمی ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں، ریٹیلر،پراپرٹی کی ٹرانزیکشن کرنے والا،اور ایگری کلچر کا آڑھتی باہر ہے۔ تینوں پر ہاتھ ڈالنا ہے،جب یہ کریں گے تو مسئلہ قریبا حل ہوجائے گا۔ لیکن ریٹیلرکو پکڑیں کیسے، ان کے خلاف کارروائی کریں تو شٹرڈاون ہوجاتا ہے، ہر دوسرا آدمی ٹی وی اخبار پر آکر دودھ دہی دوائی کی دکانیں بند ہونے کا رونا شروع کردے گا، جس کے باعث پانچ منٹ میں مارشل لا حکومت بھی ہوئی تو بیٹھ جائے گی۔انہیں قابو کرنا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ان کے نمائندے کسی کو خاطر میں نہیں لاتے حدسے گزرجاتے ہیں،اس مسئلے کے حل کے لیے فیڈریشن، چیمبرز حکومت کے ساتھ سنجیدگی سے بیٹھیں اور انہیں بتائیں کہ وہ دن گزرگئے۔
جنگ: حکومتی آمدنی بڑھانے کےلیےٹیکس نیٹ بڑھانے کےلیے اصلاحات کو چھوڑ کر کیا تجاویز دیں گے؟
میاں زاہد حسین: سب سے پہلے نان فائلر اورغیر رجسٹرڈ کاتصور ختم کیا جائے، ہر ٹرانزیکشن آٹومیشن پر ہونی چاہیے،جہاں تک دکان داروں سے ٹیکس لینے کی بات ہے۔جو تقریبا40لاکھ ہیں انہیں ایک ساتھ ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جاسکتا، انہیں درجہ بہ درجہ شامل کیا جائے ،اس کےکے لئےبیچ مارک بنائیں۔ جیسے ابتدائی طور پر کسی بیچ مارک کے پانچ لاکھ لوگوں کو شامل کیا جائے،اس طرح آہستہ آہستہ سستم میں لینے میں کامیابی ممکن ہے،اس کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔
ثاقب فیاض مگوں: جب تک ریٹیل پر سیلزٹیکس نہیں آئے گا،جب ریٹیل پر ٹیکس ہوگا تو تمام لوگ ٹیکس نیٹ میں آجائیں گے، ریٹیلر پرایک مرتبہ کوئی کم ازکم ٹیکس لگادیا جائے۔ لیکن اسے سیکٹر وائز نہ لگائیں ،اسے مرحلہ وار بیچ بناکر لگایا جائے۔ اس طرح تاجروں کی شٹرڈاون دھمکیوں سے بچ جائیں گے، جس سے عوام تکلیف میں آجاتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی فارمولا نہ حکومت کے پاس سے ہے اور نہ ہی ہمارے پاس ہے۔
شبرزیدی: سب سے پہلا کام جوکیا جاسکتا ہے، لوگ بجلی اور گیس کے بل پر سیلزٹیکس دے رہے ہیں یعنی یہ کنکشن تصدیق شدہ ہیں، پہلے یہ ریکارڈ درست کیا جائےجو کنزیومر ہےاسی کے نام پر کنکشن الاٹ ہو۔ ڈسکوز اور گیس کمپنی کمرشل کام کرنے والے کنزیومرز ریکارڈدرست کرنے کے لیے چھ ماہ دیں، تمام کمرشل صارفین سےکہا جائے کہ وہ اپنے میٹراپنے کاروبار کےنام پر منتقل کرلیں اوراپنا ریکارڈ درست کرلیں یہ سارے وہ لوگ ہیں جو بڑا کام کررہے ہیں،پھران کےریکارڈ کو این ٹی این سے جوڑ دیں کم ازکم 30 سے 35 لاکھ تو آپ کوویسے ہی نیا ٹیکس پئیر مل جائے گا۔
اس معاملے پر تاجربرادری سےکی جانب سےایف بی آر سے بات چیت کرنے والے رہنماوں کا تعلق جماعت اسلامی سےہےان کارویہ ہمیشہ خراب اورانتہائی جارحانہ ہوتا ہے۔ اسی وجہ حکومت کو ریٹیلر کے شٹر پاورکا خوف رہتا ہے۔ اس خوف سے نمٹنےکےلیے امن و امان پیدا کرنے والوں افراد کو سزا دے کر مثال بنائی جائے، ایسے موقع پر سیکورٹی ادارے چند بازاروں میں تعینات کردی جائے۔ سرکاری کام میں مداخلت کرنے والےایسے لیڈروں کو30دنوں کےلیے جیل کسٹڈی کریں۔
بعض بے چارےدکان دار انکم ٹیکس آفیسر کو ٹیکس سے زیادہ رشوت دینے پر مجبور ہے۔ صرف اس لیے کہ وہ ٹیکس نیٹ میں نہ آئے۔ اس مافیا کو توڑنا پڑے گا۔جولوگ پاکستانی پراڈکٹ پر کام کرتا ہے وہ ٹیکس دینے کو تیارہوتا ہے مسئلہ امپورٹڈ سامان پر کام کرنے والے لوگوں کا ہے ، افغان ٹرانزٹ سامان کے کاروبار کرنے والوں کا ہے۔کیوں کہ ان کے پاس ان پٹ نہیں ہے، ان پاس دکھانے کے لیے کچھ ہے ہی نہیں۔
ٹیکس کےخلاف سب سے زیادہ مزاحمت موبائل مارکیٹ سے ہوتی ہے،پھر کپڑا مارکیٹ سے مزاحمت نظرآتی ہے،کیوں کہ اس کی بھی منی ٹریل نہیں ہوتی۔ ابھی جس اسکیم لانے کو سن رہے ہیں وہ مکمل طور پر ناکام ہوجائے گی.آخر ی بات ہم نے147انڈسٹریز کورئیل ٹائم کا کیا تھا اسے پانچ سال میں ہی کرلیں۔آٹومیشن تمام سوالوں کا جواب ہے۔
جنگ: ریٹیل اسکیم کیا ہے؟
شبرزیدی: ہردکان دار کو ایک ایپز دیں گے وہ اس کے ذریعے رجسٹرڈ ہوگا۔وہ اس طرح کیوں ہوگایہ ناممکن ہے۔1992 سے اسی طرح کی اسکیموں کے متعلق سن رہے ہیں۔
زبیرطفیل: میں دس سال سے چھوٹے تاجروں اور ایف بی آر کے درمیان بات چیت میں شامل رہا ہوں، حکومت ان سے دوفیصد پر ریٹیل طلب کرتی ہے، لیکن وہ آدھے فیصد پر معاہدہ کرنے کے باوجود وہ ٹیکس بھی نہیں دیتے۔ نئی حکومت آئے اسے چاہیے کہ وہ چھوٹے تاجروں سے بات چیت کرے چھوٹے تاجروں کی تعداد چالیس لاکھ سے زائد ہے، اس بات چیت کے پیچھے ایس آئی ایف سی بھی بیٹھے،کیوں کہ بغیر طاقت استعمال کیے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا، یہ وہ لوگ ہیں جو سب سے زیادہ کمارہے ہیں اور کوئی ٹیکس نہیں دےرہے۔
میاں زاہد حسین: افغانستان کی کل تجارت دو ارب ڈالر ہے اور پچھلے سال سات ارب ڈالر ہوئی ہے،پانچ ارب ڈالر پاکستانیوں نے اس کےذریعے پیسہ کمایا ہے۔آپ پانچ ارب ڈالر پر اپنا ٹیکس کا اندازہ لگائیں کتنا بنتا ہے، اگر یہ ہی مال کسٹم کے ذریعے قانونی طریقے سے آتا تو اس پر آپ دو بلین ڈالر یعنی چار ہزار ارب روپے ٹیکس حاصل کرتے،یہ ہی وجہ جو امیر سے امیرتر اور غریب مزید غریب ہورہا ہے۔
شبرزیدی: ہماری یہاں کافی عرصے سےایک گزبھی ریشمی کپڑا امپورٹ یا بنا یانہیں گیا ہے، لیکن کپڑا بازاروں میں موجود ہے یہ سارا اسمگل شدہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے مرہون منت ہے، سرکاری خزانے کو مسلسل نقصان ہورہا ہے۔کچھ عرصے پہلے کراچی کے رابی سینٹر پر کسٹم والوں نے چھاپہ مارا وہاں ان پر فائرنگ کردی گئی کسٹم والوں کا بھاگنا پڑا۔
جنگ: ان اصلاحات کو کوئی فائدہ ہوگا یا نہیں؟
شبرزیدی: اصلاحات دوطرح کی ہوتی ہیں ایک کاغذ پر دوسری حقیقی ،ہماری یہ اصلاحات حقیقی نہیں ہیں اس کاکوئی فائدہ نہیں ہوگا۔