اسلام آباد (رپورٹ : عاصم جاوید) اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتہ بلوچ طلبا کی عدم بازیابی پر نگران وزیر اعظم ، وفاقی وزیر داخلہ اور وزیر دفاع سمیت دونوں وزارتوں کے سیکرٹریز کو آج ذاتی حیثیت میں عدالت طلب کر لیا ہے.
فاضل جسٹس نے کہا کہ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ ، وزیر داخلہ اعجاز گوہر ، وزیر دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ انور علی حیدر ، سیکرٹری داخلہ آفتاب اکبر درانی اور سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمود الزمان خان پیش ہو کر بتائیں کہ اعلیٰ ترین عہدوں پر بیٹھ کر بلوچ طلبہ کو بازیاب نہ کرانے پر انکے خلاف کارروائی کیوں نہ کی جائے؟ لاپتہ افراد اگر دہشت گردی یا کسی اور جرم میں ملوث ہیں تو مقدمات درج کر کے انہیں عدالتوں میں پیش کریں اور قانون کے مطابق فیصلے ہونے دیں .
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتہ بلوچ طلبا کی بازیابی کیس کی 13 فروری کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل منصور اعوان نے وفاقی حکومت کی جانب سے 10 جنوری کو عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ اب کوئی اغوا یا جبری طور پر گمشدہ نہیں ہو گا اور تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے گا لیکن اس یقین دہانی کے باوجود 12 بلوچ طلبا کو بازیاب نہیں کرایا گیا۔ دوسری جانب ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بلوچ طلبا کی بازیابی کیلئے مزید مہلت طلب کر لی.
عدالت نے مزید کہا کہ نگران وزیراعظم ، وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کے وزرا اور سیکرٹریز نے عدالتی حکم پر عملدرآمد نہیں کیا ، ان کا یہ اقدام قابل مذمت ہے، یہ پہلو وزیراعظم، وزیر داخلہ و دفاع اور دونوں سیکرٹریز کو مس کنڈکٹ کا مرتکب بناتا ہے، ریاستی اداروں کے پاس اپنے کنڈکٹ کی کوئی وضاحت نہیں بلکہ وہ اس معاملے پر مکمل خاموش ہیں.
عدالت اس متعلق بڑی واضح ہے کہ اس معاملے پر دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں ، ایک یہ کہ ریاستی ادارے یا تو اغوا اور جبری گمشدگیوں کے مجرمانہ فعل کے ذمہ دار ہیں یا دوسری صورت میں وہ (ریاستی ادارے) مکمل طور پر ناکام ہیں کہ وہ مبینہ گمشدہ افراد کو بازیاب نہیں کروا سکتے۔
تحریری حکم نامہ کے مطابق وزارت داخلہ و دفاع کے افسران نے سربمہر لفافے میں بھی لاپتہ بلوچ طلبا کے کنڈکٹ یا تخریبی سرگرمیوں کے بارے میں عدالت کو آگاہ نہیں کیا۔ لہٰذا نگران وزیر اعظم ، وفاقی وزارت داخلہ و دفاع کے وزرا اور سیکرٹریز آج عدالت میں پیش ہو کر اپنی پوزیشن واضح کریں۔