• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاپتا بلوچ طلبا کیس، وزیراعظم جواب دہ ہیں، عدالت میں پیش ہونا توہین نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد (نمائندہ جنگ ) اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ بلوچ طلبا کی عدم بازیابی اور نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی عدم حاضری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے 28 فروری کو تیسری مرتبہ طلب کر لیا ہے ۔عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ وزیراعظم جوابدہ ہیں، عدالت میں پیش ہونا توہین نہیں ہے۔ عدالت نے وفاقی سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ کو بھی آئندہ سماعت پر پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ یونیفارم کی عزت بحال کرنے کی ضرورت ہے، ڈریں اس وقت سے جب قانون نافذ کرنیوالے اداروں کےخلاف کوئی اٹھ کھڑا ہو، اگر ریاستی ادارے یہ کریں گے تو چوروں اور ڈاکووں سے شہریوں کی حفاظت کون کرے گا؟۔ دوران سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دئیے کہ عدالت میں پیش ہونا وزیراعظم کی توہین نہیں ، وہ جوابدہ ہیں۔ عدالت نے لاپتہ افراد کے معاملے پر ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم آئی اور ڈی جی آئی بی پر مشتمل کمیٹی بناتے ہوئے کہا کہ جن پر الزام ہے انہی ایجنسیوں پر مشتمل کمیٹی بنا دیتے ہیں ، کوئی سیاسی حکومت ہو یا نئی حکومت آنے والی ہو ، جواب کمیٹی نے دینا ہے۔ آئندہ اسلام آباد کی حدود سے کوئی غائب ہوا تو آئی جی ، سیکرٹری داخلہ اور انچارج سی ٹی ڈی کیخلاف مقدمہ ہو گا۔ پیر کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتہ بلوچ طلبا کی بازیابی کی درخواست کی سماعت کی۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل پاکستان منصور اعوان ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل ، درخواست گزار وکیل ایمان مزاری اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ نگران وزیراعظم کراچی میں ہیں اس لئے عدالت نہیں آ سکے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیاکہ لاپتہ 12 طلبا بازیاب ہوئے یا نہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہاکہ میری معلومات کے مطابق 8 طلبا ابھی بازیاب نہیں ہوئے۔ عدالت نے کہاکہ نگراں وزرا داخلہ اور دفاع ، سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ کدھر ہیں؟ دوسری دفعہ وزیر اعظم نہیں آئے؟ سیکرٹری دفاع کیوں نہیں آئے؟ اس موقع پر سیکرٹری داخلہ آفتاب درانی عدالت کے سامنے پیش ہو گئے۔ جسٹس محسن اخترکیانی نے کہاکہ ہر ماہ کی تاریخ ملا کر 24 تاریخیں ہو چکی ہیں۔ ہمیں اپنے شہریوں کو بازیاب کرنے میں دو سال لگ گئے۔ جو شہری بازیاب ہوئے انکے خلاف کوئی اغوا برائے تاوان ، قتل یا کوئی اور کیس ریکارڈ پر نہیں۔ ان لاپتہ بچوں کی مائیں بہنیں ہوں گی وہ ڈھونڈ رہی ہوں گی۔ اسلام آباد سیکٹر ایف سکس سے بغیر ایف آئی آر ایک شہری کو اٹھا لے گئے۔ سیکرٹری دفاع ، سیکرٹری داخلہ ، ڈی جی آئی ایس آئی ، ڈی جی ایم آئی سرکاری ملازم ہیں۔ یہ سب افسران جوابدہ ہیں ، کوئی قانون سے بالاتر نہیں۔ اپنے ملک کے شہریوں کو بازیاب کرنے کیلئے دو سال لگے۔ انکے خلاف لڑائی جھگڑے ، نارکوٹکس سمیت کسی قسم کا کوئی کیس نہیں۔ لاپتہ افراد کے اور بھی حساس کیسز سنتے ہیں۔ 24 ماہ میں ابھی تک تمام بچوں کو بازیاب نہیں کر سکے۔ نگران وزیراعظم سے پوچھ لیں، انکو اس لئے بلایا تھا کیونکہ وہ جوابدہ ہیں ، یہاں کوئی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔

اہم خبریں سے مزید