• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت گزشتہ سات دہائیوں سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود کشمیر پر قابض ہے،اپنے اس غاصبانہ قبضے کے دوران وہ ایک لاکھ بے گناہ کشمیریوں کو قتل کرنے کا مرتکب ہے۔ مظلوم کشمیریوں کی نہ جانیں محفوظ ہیں نہ عزت و آبرو ۔ انکی جائیدادوں کو ظالمانہ طریقےسے غصب کرکے غیر کشمیریوں کے حوالے کیا جارہا ہے تاکہ غیر قانونی طور پر غیر کشمیری ہندوئوں کو مقبوضہ کشمیر میں آباد کرکے کشمیریوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جاسکے۔ کشمیریوں کے قائدین کوناکردہ جرم میں ایک عرصہ سے جیلوں میں قید کیا گیا ہے۔ ہزاروں کشمیریوں کو بھارتی فوجی درندے جرم بے گناہی میں گرفتار کرکے لے جا چکے ہیں جن کا یہ بھی پتہ نہیں کہ وہ کہاں اور کس جیل میں بند ہیں زندہ بھی ہیں یا انہیں شہیدکردیاگیا ہے۔ پاکستان نے متعدد بار دنیا کی توجہ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے اور وہاں طویل عرصہ سے مظلوم کشمیریوں پر بھارتی حکومت کے جبر و تشدد کی طرف دلانے کی کوشش کی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ میں قراردادیں بھی موجود ہیں۔ پاکستان ہمیشہ سے مظلوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کیلئے جو کہ کشمیریوں کا بنیادی مطالبہ اور حق ہے پاکستان نے ان کو تنہا نہیں چھوڑا ہے۔ پاکستان کشمیریوں کو حق خودارادیت دلانےکیلئے ان کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کرتا رہا ہے اور کشمیریوں کے اس حق کے حصول تک ان کی یہ حمایت کرتا رہے گا۔ لیکن افسوس کہ مسلم ممالک اسی بھارت کے ساتھ سفارت و تجارت کرتے ہیں بھارت اور اسرائیل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ بھارت نے کشمیر پر ناجائز قبضہ کرکے بے گناہ کشمیریوں کی زندگی اجیرن اور مقبوضہ کشمیر کو اوپن ایئر جیل میں تبدیل کیا ہے بلکہ اگر مقبوضہ کشمیر کو دنیاکی سب سے بڑی اور انوکھی جیل کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ صرف یہی نہیں بلکہ نریندر مودی کی حکومت نے تو بھارت کے غیر ہندو شہریوں کا جینا بھی محال کیا ہوا ہے۔ بھارت کے اندر مسلمان بھارتی شہری آزادی سے رہنا تو کیا سانس بھی نہیں لے سکتے۔ بھارتی پولیس کی نگرانی میں بی جے پی کی دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کے غنڈے مسلمانوں کی نہ صرف دکانیں اور گھر نذرآتش کرنے بلکہ انکے گھروں پر چڑھ دوڑنے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتے۔ وہاں یہ عالم ہے کہ کوئی پتہ نہیں کہ آر ایس ایس کے غنڈے پولیس کی نگرانی میں کہاں اور کس وقت کوئی بھی بہانہ بناکر مسلمانوں پر حملہ آور ہو جائیں۔ بھارتی پنجاب کے کسان جن میں اکثریت سکھوں کی ہے مودی سرکار کے عتاب کا نشانہ ہیں۔ اب یہ کسان دوسری بار مودی حکومت کی ظالمانہ پالیسیوں کی وجہ سے سراپا احتجاج ہیں۔ ہزاروں کسان گزشتہ کئی دنوں سے سڑکوں پر ہیں اور دہلی کی طرف مارچ کرتے ہوئے رواں دواں ہیں۔ 2020ء میں بھی مودی سرکار کی طرف سےکی گئی زرعی اصلاحات کیخلاف دہلی کی طرف ہزاروں کسانوں نے احتجاجی مارچ کیا تھا۔ اس وقت بھی بھارتی حکومت نے ان کسانوں کو بزور بندوق دہلی کی سرحد پر روک لیا تھا اور کئی دنوں تک یہ کسان وہاں دھرنا دے کر بیٹھے رہے تھے۔ اس احتجاج کی وجہ سے مودی حکومت نے مجبوراً ان نئے قوانین پر عملدرآمد معطل کیا تھا۔ اس دوران بھارتی حکومت نے ان احتجاجی کسانوں سے معاملہ ٹھنڈا کرنے کیلئے جو وعدے کئے تھے وہ وعدے ہی رہے۔ اب بھارتی کسان ان وعدوں پر عملدرآمد چاہتے ہیں اور بھارتی حکومت کی ہٹ دھری دیکھیں کہ وہ اپنے ان کئے گئے وعدوں سے منحرف ہوکر ایک بار پھر ان کسانوں کو بندوق اور جبر کے ذریعے احتجاج سے باز آنے پر مجبور کر رہی ہے۔ لیکن اس بار شاید بھارتی حکومت کی جبر و ظلم کی پالیسی کارگر ثابت نہ ہوسکے گی۔ بلکہ حکومت کو کسانوں کے تمام جائز مطالبات کو تسلیم اور گزشتہ وعدوں کے مطابق عملدرآمد کرنا پڑے گا۔ مقبوضہ کشمیر اور بھارتی مسلمانوں کے علاوہ تمام اقلیتوں پر ظلم، جبر اور تشدد کے ساتھ ساتھ بھارتی کسانوں جو زیادہ تر سکھ ہیں پر ظلم و تشدد بھارت کا تیسرا رخ ہے۔ مختصر یہ کہ بھارت کا انسانی حقوق سے متعلق کرداربالکل سیاہ ہے۔ بھارت اور اسرائیل انسانی حقوق کی پامالی اور زور زبردستی کرنے میں ایک ہی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور مسلمان خاموش ہیں۔ اسرائیل گزشتہ کئی دہائیوں سے فلسطین پر قابض ہے اور ظلم کی انتہا دیکھیں کہ وہ اب ان علاقوں کو بھی بندوق کے زور پر ہڑپ کرنا چاہتا ہے جو فلسطینیوں کے علاقےہیں اور وہاں فلسطینی آباد ہیں۔ غزہ اور خان یونس کو فلسطینیوں کا مقتل بنا دیا گیا ہے۔ بھوکے پیاسے فلسطینی پناہ کی تلاش میں بھاگتے پھرتے ہیں۔ فلسطین کوئی امریکہ میں نہیں ہے نہ ہی آسٹریلیا میں ہے۔ فلسطین مسلم ممالک کے ساتھ ہی ہے۔ دنیا میں دو ارب کے لگ بھگ مسلمان ہیں۔ ان کے سامنے فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے۔ کسی کو ان معصوم بچوں پر بھی ترس نہیں آتا جو بھوک پیاس کا شکار ہیں اوراسرائیلی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ غیر مسلم ممالک نے سلامتی کونسل اور عالمی عدالت میں مظلوم و بے کس ولاچار فلسطینیوںکیلئے آوازیں اٹھائیں۔ اسرائیل کے ساتھ سفارتی و تجارتی تعلقات ختم کئے لیکن مسلم ممالک کو یہ جرأت و ہمت نہیں ہوئی۔ ہم کیسے مسلمان ہیں اور ہم کیسے مسلمانی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ قیامت کا سخت دن آنے والا ہے وہاں جب یہ بات پوچھی جائے گی تو کس کے پاس جواب ہوگا۔ امریکہ نے تو تیسری بار غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کر دی وہ کھلم کھلا اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے لیکن مسلمان خاموش ہیں اب نہ تو کوئی سلطان صلاح الدین ایوبی ہے نہ محمد بن قاسم ۔ بس مسلمان ہیں ،کشمیری مریں یا فلسطینی مریں۔

تازہ ترین