اسلام آباد(نمائندہ جنگ ، جنگ نیوز )سپریم کورٹ میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ایک بار پھر ریفرنس کے قابل سماعت ہونے کاسوال اٹھاتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ صدارتی ریفرنس پر عدالتی فیصلوں کا جائزہ لینے سے فلڈ گیٹ کھل جائے گا، چیف جسٹس ،قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ نظر ثانی میں ججوں کی جانبداری کو دیکھا گیا تھا لیکن نظام کی جانبداری کو نہیں دیکھا گیا،اگر آئین کے آرٹیکل چھ کا اطلا ق ہوتا تو ٹرائل کرنے والوں کا خود ٹرائل ہوتا ،ہو سکتا ہے سوچا گیا ہو اسے سزا نہ دی تو کل ہم پر آئین کاآرٹیکل 6 ہی نہ لگا دے،یہ چیزیں بھٹو فیصلے میں نہیں ہیں مگر تاریخ کا حصہ ہیں ،سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کی پابند ہے،جسٹس مندو خیل نے کہاکہ لگتا ہے جن ججز نے فیصلہ دیا وہ خود بھی متفق نہیں تھے،جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ پہلے ٹرائل کورٹ ،سپریم کورٹ اور نظر ثانی کے فیصلے کالعدم ہونگے تو جانبداری کے سوالات کا جواب دیا جائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ تین فیصلے کیسے کالعدم کیے جاسکتے ہیں ؟امائیکس کیورائے خالد جاوید نے موقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے قرار دیا ہے کہ بھٹو کیس کا فیصلہ درست نہیں تھا جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ پھر تو عدالتی ڈیکلریشن آگیا ،دوسرے امائیکس کیورائے بیرسٹر صلاح الدین نے موقف اختیار کیا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ کا بیان ہی ایک قابل قبول گواہی ہے، اگر مقدمہ کی سماعت کرنے والے جج ہی غیر جانبدار نہیں تھے ؟تو عدالت بھٹو کیس میں وضع کردہ اصول تبدیل کیے بغیر جانبداری کے ایشو پر رائے دے سکتی ہے۔