• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی اور علمی طاقتیں بمقابلہ بھٹو

تحریر:ابرار میر… لندن
اسکول کے زمانے سے سیاست میں دلچسپی رکھنے والا طالبعلم جب قائد عوام بنا تو کہا کہ میری سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ نوجوان میرے ساتھ ہیں اور یہ بات طے ہے کہ میں مر بھی جاؤں تو مجھے عوام سے کوئی جدا نہیں کرسکتا۔ جب شہید ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا تو ا س وقت عالمی طاقتیں اس سازش میں سر عام ملوث تھیں مگر علمی طاقتیں خاموش تماشائی بنے دیکھ رہی تھیں یا عدلیہ کی صورت میں اس جرم میں شریک تھیں۔ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ نے ہماری اسٹیبلشمنٹ کو بھی مجبور کردیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو صفا ہستی سے مٹانا ہے اور پھر اس عدالتی قتل کے بعد ملک و قوم کو سیاسی، اخلاقی، معاشرتی پستی میں دھکیل کر طبقاتی، لسانی اور علاقائی تفرقہ میں ڈال دیا گیا۔ چار اپریل 2011کو سابق صدر آصف علی زرداری نے صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ کو بھیجا جسےسابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ نے منظور کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے تیرہ اپریل کی تاریخ رکھی مگر پھر اس پر کارروائی نہ ہوسکی اور اب جاکر قاضی فائز عیسی نے یہ اہم ترین کیس اٹھایا بلکہ اس کی لائیو کوریج بھی شروع کردی۔ آصف علی زرداری نے بارہا کہا کہ وہ اس معیار تک پہنچنا چاہتے ہیں کہ جب وہ فوت ہوں تو انکی آخری آرام گاہ گڑھی خدا بخش کے شہیدوں والے مقام میں کی جائے۔ اب اس میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ آصف علی زرداری نے جس تدبر اور سوچ سے یہ ریفرنس بھیجا وہ بلآخر اس مقام پر پہنچ رہا ہے کہ جہاں نہ صرف وہ ایک بار پھر صدر پاکستان بنیں گے بلکہ ملک و قوم اور نئی نسل کو آگاہی ہوگی کہ کس طرح قوم کے محسن کو چھین لیا گیا مگر وہ گڑھی خدا بخش سے تا قیامت حکومت کرتا ر رہے گا اور وہ کیسے زندہ ہے۔ آج شہید بھٹو کا نواسہ بلاول بھٹو زرداری، نواسی آصفہ بھٹو زرداری اور انکی بیٹی صنم بھٹو کہ جو شاید دنیا کی سب سے دکھی خاتون ہونگی جائے قتل سے انصاف کے متلاشی ہیں۔ اس کیس میں عدالت عظمیٰ نے اپنی معاونت کےلئیے ریٹارڈ جسٹس منظور ملک کی خدمات بھی حاصل کیں اور انہوں نے جب یہ بتایا کہ کیس تو عدم ثبوت کیوجہ سے بند ہوچکا تھا لیکن جب دوبارہ کھولا گیا تو بغیر کسی مجسٹریٹ کے حکم اور بغیر ہی شکایت کے شروع کردیا گیا اور شہید بھٹو کا تو بنیادی شکا یت میں نام تک بھی نہیں تھا تو عدالت سمیت سب دیکھنے سننے والوں پر ایک قسم کا سکتہ طاری ہوگیا۔ اس کیس کو شاید سوموار 4مارچ تک سن لیا جا ئے گا اور اسکے بعد پھر عدالت عظمیٰ اپنی کارروائی کرکے جب تک ایوان صدر کو جواب دیگی تو شاید اسوقت تک ایک بار پھر آصف علی زرداری صدر پاکستان بن چکے ہوں گے۔ شاید اس مقدمے کے صحیح فیصلے سے عدلیہ سے سیاہ دھبہ کسی حد تک کم ہوجائے اور طاقتور ادارے میں بھی کچھ احساس جاگ جائے۔ جسٹس ریٹائرڈ منظور ملک وہی جج ہیں کہ جنہوں نے تقریباً 50,000 مقدموں کا فیصلہ کیا اور 2021 میں ریٹائر ہوگئے۔ انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسی کیخلاف مقدمے میں انکے حق میں فیصلہ تو مانا تھا لیکن پھر انکے مالی معاملات کو FBR بھیجنے کا کہا اور بعد ازاں اس غلطی پر معذرت بھی کی اور اسکی درستگی بھی کی۔ بلکہ انہوں نے تو ایک معذور شخص کی پھانسی کی سزا بھی بدل دی کہ معذور شخص کو سزا نہیں ہوسکتی کہ اسے تو سزا کی اہمیت کا پتہ ہی نہیں چل سکتا اور وہ اسکا دفاع بھی نہیں کرسکتا تو اسے سزا کیسے دی جاسکتی ہے۔ اب قاضی فائز عیسی چیف جسٹس آف پاکستان بن چکے ہیں اور انہوں نے ہی ریٹائرڈ جسٹس منظور ملک کو بھی اس معاون پینل میں شامل کیا۔ جب منظور ملک اس کیس میں ہوشربا انکشافات کررہے تھے تو انہیں اپنے جذبات پر قابو رکھنا مشکل ہورہا تھا کہ وہ بددیانتی یا طرفداری کو کیسے بیان کریں اور جب چیف جسٹس نے کہا کہ Biased تو انہوں نے کہا کہ Biased تو پھر بھی اچھا ہے لیکن یہ اس سے بھی بڑھ کر کچھ ہے اور میں اس مقام پر ہوں کھڑا ہوں کہ جس پر کچھ کہنا چاہتا ہوں لیکن پنجابی میں کچھ کہہ نہیں سکتا تو چیف جسٹس نے انہیں پنجابی میں کچھ کہنے سے منع کردیا۔
یورپ سے سے مزید