اسلام آباد (فاروق اقدس) سیاسی مخالفین کے خلاف ہرزہ سرائی، الزامات اور ان کے خلاف حقائق کے منافی پروپیگنڈہ تو ایک دیرینہ طرز سیاست بن چکا ہے تاہم اس ماحول میں مثبت سوچ، سیاسی رنجش کو نظرانداز کر کے کئے جانے والے حکومتی اختیارات کے اقدامات کو بروئے کار لانا بھی ایک نعمت غیرمترقبہ سے کم نہیں، یہ حوالہ پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز کی مثبت سوچ اور ستائش کے صلے کے بغیر کئے جانے والے اس اقدام کے باعث آیا جب انہوں نے ماضی کی ایک سیاسی حریف جماعت کے ذاتی انتقام کا اسیری کی شکل میں نشانہ بننے کے باوجود اس جماعت کی خاتون رکن اسمبلی جو ایک ذاتی نوعیت کی شدید مشکل اور پیچیدہ صورتحال کا شکار تھیں اس کے حل کیلئے ذاتی دلچسپی لے کر اپنا کردار ادا کیا۔ تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ تحریک انصاف کی سابق رکن قومی اسمبلی ملیکہ بخاری نے اپنی مختلف پوسٹس کے ذریعے یہ کہا تھا کہ ان کی 46 سالہ بہن آسٹریلیا میں اپنی زندگی کی بازی لڑ رہی ہیں اور وہ اس وقت ان کی موجودگی میں ہونا چاہتی ہیں۔ ’وہ اس وقت وینٹیلیٹر پر ہیں۔ ڈاکٹروں نے ہمیں 24 گھنٹے دیے ہیں۔ یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ انھیں وینٹیلیٹر پر ہی رکھا جائے یا انھیں مردہ قرار دیا جائے۔‘ ملیکہ بخاری نے کہا تھا کہ انھیں ایک سال سے غیر قانونی طور پر اس لسٹ پر رکھا ہوا ہے اور انھوں نے وزیر اعظم شہباز شریف سے درخواست کی کہ انھیں ایک دفعہ کی اجازت دی جائے کہ وہ اپنی بہن کے پاس جا سکیں۔ اس پوسٹ کے جواب میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے جواب دیا کہ ’ملیکہ مجھے متعلقہ حکام سے بات کرنے دیں۔ میں امید کرتی ہوں آپ نے باضابطہ درخواست جمع کروائی ہوئی ہے،‘ پوسٹس کے اس تبادلے کے چند گھنٹوں بعد ملیکہ بخاری نے ایکس پر مریم نواز کی بروقت مداخلت کا شکریہ ادا کیا اور فہرست سے اپنے نام ہٹائے جانے کی تصدیق کی۔