• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جہاں روزے تقویٰ کے حصول اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کو مضبوط کرنے کا ذریعہ ہیں، وہیں یہ جسمانی و ذہنی صحت کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ طبی تحقیق کے مطابق کئی گھنٹے کھانے پینے سے اجتناب ،انسانی جسم کے مختلف افعال اور نظاموں کو بہتر بنانے میں فائدہ مند ہے ۔ دل کے امراض کے پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو روزہ رکھنے والے افراد کے دل کی صحت بہتر ہوتی ہے۔ 

تاہم، روزہ رکھنے سے کچھ افرادکو، بالخصوص ایسے افراد جو کمزور یا ضعیف ہوں یا ان کی بیماری پوری طرح کنٹرول میں نہ ہو، کئی پیچیدگیوں کےشکار ہوسکتے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں ہم خاص طور پر دل کے امراض کے بارے میں کچھ تفصیلات بیان کریں گے۔ اس میں مبتلا مریضوں کی اکثریت عمومی طور پرstable رہتی ہے ۔ تاہم، کچھ مریضوں کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ روزے رکھ سکیں اور طویل گھنٹے بھوک پیاس برداشت کر سکیں۔

دل کے امراض کئی قسم کے ہوتے ہیں جن میں ہائی بلڈ پریشر، دل کی شریانوں کی بیماری (انجائنا، ہارٹ اٹیک، اسٹنٹ، بائی پاس وغیرہ)، دل کے عضلات کی کمزوری یا دل کا فیل ہونا، دل کے والو اور دھڑکن کی بیماری شامل ہے۔ اس کے علاوہ کسی دوسری بیماری کے ساتھ بھی دل کا عارضہ لاحق ہو سکتا ہے جیسے ذیابطیس وغیرہ۔ ان تمام مسائل کے پیش نظر ہر مریض کے لیے روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کی ہدایات الگ الگ ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر دل کے جن مریضوں کو ذیابطیس کا مرض لاحق ہو، ان کے لیے روزہ رکھنا قدرے مشکل ہوسکتا ہے۔

ذیل میں ان اصول اور گائیڈ لائنز کے بارے میں بتایا جا رہا ہے جو روزے کے ضمن میں دل کے مختلف امراض سے متعلق ہیں۔ ان ہدایات کو لازمی طور پر دل کے مریضوں کو رمضان میں پیش نظر رکھنا چاہیے۔

ہائی بلڈ پریشر

بلڈ پریشر میں مبتلا مریضوں کی اکثریت کے لیے روزہ رکھنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ صرف ایسے مریض جن کا بلڈ پریشر اچھی طرح کنٹرول نہیں ہوتا یا ساتھ ہی ان کو ذیابطیس بھی ہو اور وہ بھی کنٹرول نہ ہو رہی ہو تو انہیں اپنے طبی معالج سے رائے لینے کے بعد روزے رکھنے یا نہ رکھنے کے بارے میں فیصلہ کرنا چاہیے۔ یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ روزہ یا کم کھانے کی وجہ سے بلڈ پریشر عمومی طور پر کم ہو جاتا ہے۔ 

چنانچہ اگر مریض کمزوری محسوس کرے، کھڑے ہونے کی صورت میں سر چکراتا ہو تو اپنا بلڈ پریشر چیک کروا ئے۔ بہتر صورت یہ ہو سکتی ہے کہ بلڈ پریشر کے مریض اپنے ساتھ بلڈ پریشر کا آلہ رکھیں اور صبح 2 مرتبہ (پانچ منٹ کے وقفے سے) اور شام 2 مرتبہ (پانچ منٹ کے وقفے سے) اپنا بلڈ پریشر چیک کریں اور یہ عمل دو تین دن تک دھرائیں۔ اگر اوسط بلڈ پریشر کم آرہا ہو (اوسط 80/130) تو دوا کم کی جا سکتی ہے۔

دل کی شریانوں کی بیماری

(انجائنا، ہارٹ اٹیک، اسٹنٹ، بائی پاس وغیرہ)

اگر کسی کوپچھلے چھ ہفتوں میں دل کا دورہ پڑا ہو، یا تین ماہ کے دوران بائی پاس ہوا ہو، یا پچھلے چھ ہفتوں میں اسٹنٹ ڈالا ہو تو ان مریضوں کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔ وہ مریض جن کو ماضی میں انجائنا، ہارٹ اٹیک، بائی پاس یاا سٹنٹ وغیرہ ہوا ہو لیکن اب وہ زندگی کے روز مرہ کاموں میں کسی تکلیف کا سامنا نہیں کر رہے تو وہ روزہ رکھ سکتے ہیں۔ ایسے مریض اپنی ادویات کو سحر اور افطار کے اوقات کے مطابق ترتیب دے سکتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر نے ایک ہی وقت کی دوا تجویز کی ہے تو اسے رات کے کھانے کے بعد لیا جا سکتا ہے۔

دل کے عضلات کی بیماری، یا دل کا پوری طرح کام نہ کرنا (Heart Failure) دل کے مریضوں کی کثیر تعداد ایسے افراد پر مشتمل ہوتی ہے جن کا دل کسی وجہ سے (عموماً ہارٹ اٹیک کے بعد وغیرہ) پوری طرح کام نہیں کر رہا ہوتا۔ ان میں سے کچھ لوگوں کو پیشاب آور ادویات پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ان ادویات کا کام جسم میں پانی کو جمع ہونے سے روکنا ہوتا ہے۔ 

جن مریضوں کو ان ادویات کی ضرورت ہوتی ہے یا وہ چلنے پھرنے میں سانس کی تکلیف، سانس پھول جانا یا کمزوری وغیرہ محسوس کرتے ہوں تو انہیں روزہ نہیں رکھنا چاہیے، کیوںکہ پیشاب آور دوا اور کھانے پینے کی پابندی سے ان کے جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی ہو سکتی ہے، جس سے مختلف قسم کی مزید تکالیف اور پے چیدگیاں ہو سکتی ہیں، تاہم ایسے مریض جن کو پیشاب آور دوا کی ضرورت نہ ہو اور وہ روز مرہ کے کام اور ورزش ،چہل قدمی وغیرہ آسانی سے کر سکتے ہیں، وہ روزہ رکھ سکتے ہیں۔

دل کے والو

دل میں چار والو ہوتے ہیں، جن کا کام خون کے بہاؤ کو واپس جانے سے روکنا ہوتا ہے ۔ جن افراد کو والو کی تنگی خصوصاً Mitral stenosis یا Aortic stenosis کا سامنا ہو، جس کی وجہ سے ان کو روز مرہ معاملات میں تکلیف ہو یا ان کو ادویات استعمال کرنا پڑ رہی ہوں تو ان کو روزہ رکھنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ جن لوگوں کے والو لیک کر رہے ہوں وہ عمومی طور پر روزہ رکھ سکتے ہیں۔

دل کی دھڑکن تیز ہونا

کچھ افراد کو دل کی دھڑکن کی بے قاعدگی یا تیز رفتاری کا مسئلہ ہوتا ہے۔ عام طور پر اگر ان کو روزہ مرہ زندگی میں، چلنے پھرنے یا ورزش ،چہل قدمی وغیرہ کے دوران کوئی مسئلہ نہ ہو تو وہ روزہ رکھ سکتے ہیں۔ ایک بات خصوصی طور پر انتہائی ضروری ہے کہ ان میں کچھ مریض فالج وغیرہ سے بچاؤ کے لیے خون پتلا کرنے کی ادویات لیتے ہیں، ان کو کسی بھی صورت میں بند نہیں کرنا چاہیے۔ کچھ مریض نئی ادویات بھی استعمال کرتے ہیں جو دیگر بیماریوں مثلاً : شوگر کے علاج کے علاوہ دل کے امراض کے لیے بھی سودمند ہوتی ہیں، یہ پیشاب آور ہوتی ہیں، لہٰذا ان کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے۔

دل کے امراض کے ساتھ روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کے بنیادی اصول درج ذیل ہیں:

•٭اگر کسی مریض کا بلڈ پریشر پوری طرح سے کنٹرول نہ ہو تو اسے روزہ رکھنے سے اجتناب کرنا چاہیے، جب تک کہ اس کا بلڈ پریشر مکمل طور پر کنٹرول میں آجائے۔ علاوہ ازیں روزوں میں عمومی طور پر بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا شروع کے دنوں میں بلڈ پریشر چیک کروا کر دوااستعمال کرسکتے ہیں۔

٭خون پتلا کرنے والی ادویات (Anti-coagulants) یا (Antiplatelets) کو کسی بھی صورت بند نہیں کرنا چاہیے۔

مضمون نگار :(شفاء انٹرنیشنل اسپتال میں کنسلٹنٹ کارڈیالوجسٹ ہیں، پروفیسر آف کارڈیو واسکولر میڈیسن، شفاء تعمیر ملت یونیورسٹی اور صدر پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) اسلام آباد ہیں )

صحت سے مزید