کراچی(سید محمد عسکری) آل پبلک یونیورسٹیز بی پی ایس ٹیچرز ایسوسی ایشن نے عدالت عظمیٰ میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں سپریم عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ جامعات میں وائس چانسلرز کی عدم تقرری کے معاملے کا نوٹس لے۔ درخواست گزاروں کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق، سرکاری شعبے کی زیادہ تر جامعات اس وقت سر براہوں سے محروم ہیں۔ خیبرپختونخوا میں 34 میں سے 24، پنجاب میں 50 میں سے 32، سندھ میں 6 اور بلوچستان میں 2 جامعات وائس چانسلرز سے محروم ہیں۔ درخواست گزاروں نے الزام لگایا ہے کہ یہ یکطرفہ صورتحال نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی یونیورسٹی سسٹم میں اعلیٰ ترین عہدوں پر بروقت تقرریاں نہ کرنے کی ڈی فیکٹو پالیسی ہے۔ اس کے بجائے، وہ ’قائم مقام وائس چانسلرز‘ کے ذریعے یونیورسٹیوں کو ’کنٹرول‘ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جو اگلے احکامات تک اپنے عہدے پر فائز رہتے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور ایچ ای سی کو جواب دہندگان کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ درخواست گزاروں نے یونیورسٹی کے نظام میں دیگر سنگین غیرقانونی اقدام کی بھی نشاندہی کی ہے جیسے کہ ڈینز اور ایچ او ڈیز کی میعاد کی خلاف ورزی اور یونیورسٹی کے جان بوجھ کر فیصلہ کرنے والے اداروں جیسے سنڈیکیٹ اور اکیڈمک کونسلز کے باقاعدہ اجلاس منعقد کرنے میں ناکامی۔ درخواست گزاروں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ جواب دہندگان کو قانون کے مطابق اور بغیر کسی تاخیر کے پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر کے عہدوں پر تقرریاں کرنے کی ہدایت دیں۔ درخواست گزار نے VCs کی عدم تقرری سے متعلق سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلے پر انحصار کیا ہے۔ عامر رضا اشفاق بمقابلہ ڈاکٹر منہاج احمد خان میں کہا گیا کہ اس طرح کے ایک اہم عہدے دار کی تقرری میں تاخیر یونیورسٹی کے کام کو بری طرح متاثر کرے گی اور ادارے کو تقریباً غیر فعال کر دے گی اور اس طرح تعلیم کے معیار پر بھی منفی اثر پڑے گا۔