• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ججز کا خط، فل کورٹ اجلاس، چیف جسٹس کی صدارت میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط پر غور، آئینی و قانونی حیثیت کا جائزہ

اسلام آباد، لاہور (رپورٹ:رانامسعود حسین، ایجنسیاں) اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط کے معاملے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس ہوا، جس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کی جانب سے لکھے گئے خط پر غوراور اسکے آئینی و قانونی حیثیت کا جائزہ لیا گیا، علاوہ ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ کےججز کے خط پر انکوائری کمیشن تشکیل دینے کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی گئی، درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے خط طے شدہ منصوبہ لگتا ہے اور بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے اشارے پر لکھا گیاہے،خط منظر عام پر آتے ہی چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق اور چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف سوشل میڈیا پر ایک مذموم مہم شروع کردی گئی تھی، دریں اثناء ملک کے پانچوں ہائیکورٹس بار اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشنز نے خط کے معاملے پر چیف جسٹس پاکستان سے تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ کی آزادی کیخلاف کوئی ایکشن برداشت نہیں کرینگے، خیبر پختونخوا اور بلوچستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ خفیہ اداروں کی مداخلت قابل مذمت ہے، سپریم کورٹ بار،لاہور اور اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشنز نے کہا ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کی جائے،دوسری جانب سابق جج شوکت صدیقی کا کہنا ہے کہمیں نے تن تنہا یہ جنگ لڑی اور جیتی اللہ کا شکر ہے میں سرخرو ہوا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کا خط میری باتوں کی توثیق کررہا ہے، چھ ججوں کے جوڈیشل کنونشن بلانے کے مطالبے کی حمایت کرتا ہوں۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط کے معاملے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس ہوا فل کورٹ اجلاس میں جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس امین الدین، جسٹس شاہد وحید، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس عرفان سعادت، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس عائشہ صدیقی اور جسٹس نعیم اختر افغان بھی موجود تھے۔ ذرائع کے مطابق فل کورٹ اجلاس تقریباً ڈھائی گھنٹے تک جاری رہا۔ ذرائع کے مطابق فل کورٹ اجلاس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط پر غور کیا گیا اور ججز کے خط کی آئینی و قانونی حیثیت کا جائزہ لیا گیا۔چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس ججز کمیٹی روم دوگھنٹے تک جاری رہنے کے بعد ختم ہوگیا، اجلاس آج دوبارہ ہو گا۔دریں اثناء سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ایک آئینی درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6حاضر سروس ججوں کی جانب سے عدلیہ کے معاملات میں خفیہ ادارے کے اہلکاروں کی مبینہ مداخلت،من مرضی کے بنچوں کی تشکیل اور من مرضی کے مقدمات کو سماعت کیلئے مقرر کروانے ،ججوں پردباؤ ڈالنے، دھمکیاںدینے اور ہراساںکرنے کے الزامات کے حوالے سے سپریم جودیشل کونسل کو لکھے گئے خط میں عائد الزامات کی صاف ،شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کیلئے ایک ’’اعلیٰ سطح کا تحقیقاتی کمیشن‘‘ تشکیل دینے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ 6ججوں کا لکھا گیا یہ خط ایک ڈیزائن شدہ اقدام لگتا ہے۔ درخواست گزار میاں داؤد ایڈوکیٹ نے بدھ کے روز آئین کے آرٹیکل184 (3)کے تحت دائر کی گئی درخواست میں وفاق پاکستان کو سیکرٹری ہائے، وزارت قانون و انصاف، سیکرٹری دفاع اورسیکرٹری وزارت داخلہ، اسلام آباد ہائی کورٹ کو اسکے رجسٹرار کے ذریعے،جبکہ جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری ،جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس محترمہ ثمن رفعت امتیاز کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط میں عمومی نوعیت کے الزامات لگائے گئے ہیںجن سے یہ تاثر ابھرتاہے کہ خفیہ ادارے پورے ملک کے عدالتی نظام کو کنٹرول کر رہی ہے، درخواست گزار کے مطابق فاضل ججوں کی جانب سے لکھے گئے اس خط کے ذریعے عدلیہ کی آزادی اور عوامی اعتماد کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ہے ،خط میں صرف ایک کیس کا حوالہ دیا گیاہے جبکہ تاثر یہ دیا گیا کہ خفیہ ادارے اور انتظامیہ پاکستان تحریک انصاف کے مقدمات پر اثر انداز ہو رہی ہے، درخواست گزار کے مطابق خفیہ ادارے کی عدالتی کارروائی میں مداخلت کیخلاف ان6 ججوںکے سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کرنے کے عمل نے ہی اس سارے معاملہ کو ہی مشکوک کر دیا ہے۔

اہم خبریں سے مزید