محمود شام جواں لہو سے بھرے شہر ایک سکتے ہیں مکان روتے ہیں بازار بین کرتے ہیں سب اپنے اپنے محلے کی شادمانی تھے گھروں کی آس بڑھاتی ہوئی کہانی تھے جواں ہیں وہ بھی جوان کا لہو بہاتے ہیں یہ کیسی مائیں ہیں دہشت کودے رہی ہیں جنم یہ کیسے باپ ہیں جو ڈاکؤں کو پالتے ہیں یہ کشتگاں بھی کسی باپ کا سہارا تھے کسی کے یہ تھے بلاول۔ کسی کے حمزہ تھے جنم پر ان کے بھی آنگن میں رنگ بکھرے تھے ہر ایک گھر نے پیاروں کے خواب دیکھے تھے امیر شہر کے ماتھے پر اک شکن بھی نہیں کسی سرنگ کے آخر میں اک کرن بھی نہیں کوئی بچائے مہکتا چمن اجڑنے سے بھری بہار میں پھولوں کو یوں بچھڑنے سے