بنی اسرائیل نے پیغمبروں کو بھی قتل کیا: حضرت سلیمان علیہ السلام کے انتقال کے بعد بنی اسرائیل کی سلطنت دو ریاستوں میں تقسیم ہوگئی۔ یروشلم کی دولت یہودیہ اور سامریہ کی دولتِ اسرائیل۔ اُن دونوں اسرائیلی ریاستوں میں باہم لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہوا، نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ یہودیوں کی ریاست نے اپنے ہی بھائیوں کے خلاف دمشق کی ارامی سلطنت سے مدد مانگ لی۔ اس پر اللہ کے حُکم سے یہودیہ کے فرماں روا کو سخت تنبیہہ کی گئی، تو اُس نےاللہ کے پیغمبر کو جیل بھیج دیا۔ حضرت الیاس علیہ السلام نے اسرائیل کے بادشاہ اور یہودیوں کی بعل نامی پتّھر کے بُت کی پرستش پر ملامت کی۔
جس کی پاداش میں بادشاہ اور اُس کی بیوی، حضرت الیاس کے دشمن ہوگئے اور انہیں طویل عرصے تک ایک دُوراُفتادہ غار میں رُوپوشی اختیار کرنا پڑی۔ حضرت زکریا علیہ السلام کے صاحب زادے حضرت یحییٰ علیہ السلام نے جب یہودیہ بادشاہ کی دربار میں کھلے عام فحاشی، عریانیت اور بداخلاقیوں کے خلاف آواز بلند کی، تو بادشاہ نے اپنی محبوبہ کی فرمائش پر حضرت یحییٰ علیہ السلام کا سرقلم کرکے ایک تھال میں رکھ کر اُس کی نذر کردیا۔ وہب بن منبہؒ بیان کرتے ہیں کہ یہود حضرت زکریا کو قتل کرنے کے درپے تھے۔ آپ اُن سے بچ کر نکلے اور ایک درخت کے تنَے میں واقع خلا میں داخل ہوگئے۔ یہود اُن کی تلاش میں تھے کہ شیطان نے درخت کی جانب اشارہ کردیا، تو قوم نے درخت پر آرا چلا دیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے، ’’جو لوگ اللہ کی آیتوں سے کُفر کرتے ہیں اور ناحق نبیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں۔ تو اے نبی! اُنہیں دردناک عذاب کی خبردے دیجیے۔‘‘ (سورئہ آلِ عمران، آیت 21)۔
قرآن میں انبیاءؑ کے ناحق قتل کا ذکر: ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ ’’اُن (بنی اسرائیل) پر ذلّت و مسکینی ڈال دی گئی اور اللہ کا غضب لے کر وہ لوٹے۔ یہ اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کُفر کرتے تھے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے۔‘‘ (سورۃ البقرہ،آیت 61)۔ ایک اور جگہ فرمایا۔ ’’جب کبھی تمہارے پاس رسول وہ چیز لائے، جو تمہاری طبیعتوں کے خلاف تھی، تم نے فوراً تکبّر کیا۔ پس، بعض کو تو جھٹلایا اور بعض کو قتل بھی کر ڈالا۔‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت 87)۔
فرمانِ الٰہی ہے۔ ’’اور اُن کا قول لینے کے لیے ہم نے اُن کے سَروں پر طُور پہاڑ لاکھڑا کردیا۔ (لیکن اُنہوں نے عہد توڑ ڈالا) تو اُن کے عہد توڑ دینے اور اللہ کی آیتوں سے کُفر کرنے اور انبیاء کو ناحق قتل کرنے اور یہ کہنے کے سبب کہ ہمارے دلوں پر پردے (پڑے ہوئے) ہیں۔ (اللہ نے اُن کومردود کردیا اور اُن کے دِلوں پر پردے نہیں ہیں) بلکہ اُن کے کُفر کے سبب اللہ نے اُن پرمہر ثبت کردی ہے، تو یہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔‘‘ (سورۃ النساء، آیات 155,154)۔
قومِ یہود حضرت عیسیٰ ؑ کی دشمن: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں شام کا علاقہ رومیوں کے زیرِنگین تھا، یہاں اُن کی طرف سے کافر حکم راں مقرر تھا۔ یہودی چوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جانی دشمن تھے، چناں چہ انہوں نے بادشاہ کے کان بھرے اور حکم راں نے اُن کے مطالبے پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سُولی دینے کا فیصلہ کرلیا۔ اس موقعے پر اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دشمنِ یہود کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کے لیے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اُن کی دست بُرد سے بچانے کے لیے پانچ وعدے فرمائے، جن کا ذکر سورئہ آلِ عمران کی آیت نمبر 55 میں موجود ہے۔
ان وعدوں میں سے ایک وعدہ یہ بھی تھا کہ ’’یہود کو آپؑ کے قتل پر قدرت نہیں دی جائے گی، بلکہ اللہ تعالیٰ آپؑ کو اپنی طرف اُٹھالے گا۔‘‘ اور پھر ایسا ہی ہوا، اللہ نے یہود کی سازش کو ناکام بنادیا اور یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہم شکل کو پھانسی پر چڑھادیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ آسمانوں پر چلے گئے۔ قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک عادل حکم ران بن کر نازل ہوں گے۔ دجّال اور خنزیر کو قتل کریں گے۔ صلیب کو توڑیں گے۔ اس وقت عبادت صرف اورصرف پروردگارِعالم کی ہوگی۔ (قصص، مولانا محمد شفیع، صفحہ 687)۔
بنی اسرائیل، حضرت جبرائیلؑ کے دشمن تھے: احادیث میں ہے کہ چند یہودی علماء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ اگر آپؐ نے ان کا صحیح جواب دے دیا، تو ہم ایمان لے آئیں گے۔‘‘ انہوں نے سوال کیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے صحیح جواب دیے، تو اُنہوں نے ایک اور سوال کر ڈالا کہ آپؐ پر وحی کون لاتا ہے؟ آپ نے فرمایا، ’’جبرائیل ؑ ‘‘، یہود فوراً بولے ’’جبرائیل تو ہمارا دشمن ہے، وہی تو حرب و قتال اور عذاب لے کر اُترتا رہا ہے۔‘‘
پھر اسی کو وجہ بناکر آپؐ کی نبوت ماننے سے انکار کردیا۔ بنی اسرائیل میں یہودیوں کی اکثریت حضرت جبرائیل علیہ السلام کواپنا دشمن گردانتی تھی، اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ حضرت مریم علیہا السلام سے لے کرحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اور پھر آسمانوں سے واپسی تک تمام تر انتظامات اور حفاظتی امور کے نگراں حضرت جبرائیلِ امین ؑ ہی تھے۔
یہود، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مخالف تھے۔ اس لیے اُن کی حفاظت کے لیے حضرت جبرائیل علیہ السلام اُن کے ساتھ رہتے تھے، حتیٰ کہ آخرمیں حضرت جبرائیل علیہ السلام ہی اللہ کے حکم سے انہیں آسمان پر لے گئے۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ ’’اے نبیؐ ! آپ کہہ دیجیے کہ جو جبرائیلؑ کا دشمن ہے، تو اللہ بھی اُس کادشمن ہے۔ جو شخص اللہ کا اور اُس کے فرشتوں اوراُس کے رسولوں اور جبرائیل اور میکائیلؑ کا دشمن ہو، ایسے کافروں کا دشمن خود اللہ ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت 98)۔
بنی اسرائیل کی تباہی و بربادی کے چھے واقعات: قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’ہم نے بنی اسرائیل کے لیے اُن کی کتاب میں صاف فیصلہ کردیا تھا کہ تم زمین پر دوبارہ فساد برپا کروگے اورتم بڑی زبردست زیادتیاں کروگے۔‘‘ (سورہ بنی اسرائیل، آیت4)۔ بنی اسرائیل دنیا کی وہ بدترین قوم ہے، جو اخلاقی گراوٹ، عہدشکنی، بغض و عناد، نفرت و عداوت، شقاوت و سنگ دلی اور منافقت میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ قومِ فرعون کی غلامی میں چار سو سال گزارنے کے دوران قبطیوں کی عاداتِ بد اور امراضِ خبیثہ اُن کے خون میں یوں رچ بس گئے ہیں کہ اب نفرت، سرکشی، بداعمالی، جھوٹ، مکر، فریب، دھوکا اور منافقت اُن کی شخصیات کا حصّہ بن چکے ہیں۔
احسان فراموش اور ناشُکرے اتنے کہ پہلا وار اپنے محسنوں ہی پر کرتے ہیں۔ وعدہ خلاف اور بدعہد ایسے کہ اللہ اور انبیاءؑ سے جھوٹے وعدے کرتے اور پھر جب بُرا وقت گزر جاتا، توبڑی بے شرمی اور ڈھٹائی سے مکر جاتے، مگر اللہ تو اُن کی رگ رگ سے واقف ہے، جب وہ رسّی کھینچتا ہے، تو انہیں دنیا میں منہ چُھپانے کی جگہ نہیں ملتی۔ قرآنِ کریم نے عبرت و نصیحت کے لیے دو واقعات کا ذکر کیا ہے، مگر تاریخ میں اس طرح کے چھے واقعات مذکور ہیں۔ جنہیں مولانا مفتی محمد شفیع رحمتہ اللہ علیہ نے ’’معارف القرآن‘‘ میں تحریر فرمایا ہے، جو درج ذیل ہیں۔
٭ پہلا واقعہ: حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے کچھ عرصے کے بعد پیش آیا کہ جب بیت المقدس کے حاکم نے بے دینی اور بدعملی اختیار کرلی، تو مصر کا ایک بادشاہ چڑھ دوڑا اور بیت المقدس کا سامان، جو سونے، چاندی کا تھا، لُوٹ کر لے گیا، مگر شہر اور مسجدِ اقصیٰ کو منہدم نہیں کیا۔
٭ دوسرا واقعہ: قریباً چار سو سال بعد بیت المقدس میں بسنے والے بعض یہودیوں نے بُت پرستی شروع کردی، آپس میں نااتفاقی اور باہمی جھگڑے ہونے لگے۔ اس کی نحوست سے پھر مصر کے کسی بادشاہ نے اُن پر حملہ کردیا، جس سے شہر اور مسجد کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا۔
٭ تیسرا واقعہ: اس کے چند سال بعد بخت نصر، شاہِ بابل نے بیت المقدس پر چڑھائی کردی، شہر کو فتح کرکے بہت سا سامان لُوٹ لیا اور بہت سے لوگوں کو قیدی بناکر لے گیا، پھر پہلے بادشاہ کے خاندان کے ایک فرد کو اپنے قائم مقام کی حیثیت سے اس شہر کا حاکم بنادیا۔
٭ چوتھا واقعہ: نیا بادشاہ بُت پرست اور بدعمل تھا، اُس نے بخت نصر سے بغاوت کی، تو بخت نصردوبارہ چڑھ آیا، اس مرتبہ کشت و خون اور قتل و غارت کی کوئی حد نہ رہی، شہر میں آگ لگاکر اُس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، یہ حادثہ تعمیرِ مسجد سے تقریباً چارسوپندرہ سال بعد پیش آیا۔ اس کے بعد یہود یہاں سے جلا وطن ہوکر بابل چلے گئے، جہاں نہایت ذلّت و خواری سے رہتے ہوئے انھیں ستّر سال گزر گئے۔
اُس کے بعد شاہِ ایران نے شاہِ بابل پر چڑھائی کرکے بابل فتح کرلیا۔ پھر شاہ ایران کو ان جلاوطن یہودیوں پر رحم آیا اور انھیں واپس ملکِ شام پہنچا کر اُن کا لُوٹا ہوا سامان بھی واپس کردیا۔ اب یہود اپنے اعمالِ بد اور معاصی سے تائب ہوچکے تھے۔ یہاں نئے سرے سے آباد ہوئے، تو شاہِ ایران کے تعاون سے پھر مسجدِ اقصیٰ اس کے سابق طرز کے مطابق تعمیر کی۔
٭پانچواں واقعہ: یہودیوں کو جب دوبارہ اطمینان و آسودگی حاصل ہوگئی، تو دوبارہ بدکاری اور بداعمالی میں مصروف ہوگئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے ایک سو ستّرسال قبل انطاکیہ کے بادشاہ نے بیت المقدس پر چڑھائی کے دوران چالیس ہزار یہودیوں کو قتل کردیا۔
چالیس ہزار کو قیدی اور غلام بناکر اپنے ساتھ لے گیا اور مسجد کی بھی بہت بے حُرمتی کی۔ تاہم، مسجد کی عمارت بچ گئی، لیکن پھر اُس بادشاہ کے جانشینوں نے شہر اور مسجد کو بالکل میدان کردیا، اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد بیت المقدس پر سلاطینِ روم کی حکومت ہوگئی، انہوں نے مسجد کو پھر تعمیر کیا اور اس کے آٹھ سال بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے۔
٭ چھٹا واقعہ: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان کی جانب رفعِ جسمانی کے چالیس سال بعد یہ واقعہ پیش آیا کہ یہودیوں نے اپنے حکم ران، سلاطینِ روم سے نجات اختیارکرلی۔ رومیوں نے پھر شہر اور مسجد کو تباہ کرکے وہی حالت بنادی، جو پہلے تھی۔ اس وقت کے بادشاہ کا نام طیطس تھا، جو یہودی تھا، نہ نصرانی۔ اس کے بعد قسطنطین اوّل عیسائی ہوا، جس کے بعد سے حضرت عمر بن خطابؓ کے زمانے تک یہ مسجد ویران پڑی رہی۔
یہاں تک کہ پھر آپؓ نے اس کی تعمیر کروائی، اب یہ بات کہ قرآنِ کریم نے جن دو واقعات کا ذکر کیا ہے، اُن میں سے کون سے ہیں۔ اس کا قطعی تعیّن تو مشکل ہے، لیکن اُن میں سے جو واقعات زیادہ سنگین اور بڑے ہیں، جن میں یہودیوں کی بداعمالیاں بھی زیادہ تھیں اور انہیں سزا بھی سخت ملی، چوتھا اور چھٹا واقعہ ہے۔ اوپر ذکر کیے گئے چھے واقعات، ’’تفسیرِبیان القرآن‘‘ میں بحوالہ تفسیرِ حقّانی لکھے گئے ہیں۔ (معارف القرآن 5/448)۔ ان چھے واقعات کی مزید تفصیل، تفاسیر اور تاریخ کی کتب میں درج ہے۔
یہودیوں کی اسلام دشمنی کی اصل وجہ
یثرب، یہودیوں کی امیدوں کا مرکز: 589قبلِ مسیح میں بابل کے فرماں روا، بخت نصر نے بنی اسرائیل کو جب فلسطین سے نکالا، تو اُن کی ایک بڑی تعداد نے یثرب کا رُخ کیا۔ یثرب، مکّہ مکرّمہ سے450کلو میٹر بجانب شمال ایک سرسبز و شاداب وادی ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی نسل میں سے ایک شخص یثرب نے اس شہر کی بنیاد رکھی اور اسی کے نام سے یہ شہر یثرب کہلانے لگا۔ 132عیسوی میں رومیوں نے ایک بار پھر انہیں فلسطین سے بے دخل کیا، تو یہ بھاگ کر یثرب کے میدانوں میں پناہ گزین ہوگئے۔
اوّلین یہودی قبائل، جو یثرب میں رہائش پذیر ہوئے، وہ بنو قینقاع، بنو نضیر اوربنو قریظہ تھے۔ ان یہودیوں کی بڑی تعداد نے زراعت کو اپنا پیشہ بنایا اور مدینے کے آس پاس کے میدانی علاقوں میں کھیتی باڑی شروع کردی، اس کے ساتھ ہی یثرب کے آس پاس نئی بستیاں آباد کرکے ہر بستی کے اندر مضبوط برج اور جنگی قلعے تعمیر کیے۔ سدّمآرب کی تباہی کے بعد یثرب کا رخ کیا، جہاں پہلے سے آباد یہودیوں نے اپنے دینی بھائیوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ یہودیوں کو اپنے زراعتی کاموں کے لیے افرادی قوت کی ضرورت تھی، جب کہ قبیلہ اوس و خزرج بے روزگار تھے۔ چناں چہ یہودیوں نے ان قبائل کے افراد کو کھیتی باڑی میں لگا دیا۔
یثرب میں یہودی سازش کے پہلے شکار: انصارکے نام سے یاد کیے جانے والے ان دونوں قبائل نے زراعت کے میدانوں میں اپنی محنت اور لگن سے وہ جوہر دکھائے کہ بہت جلد یثرب کے غیرآباد علاقے لہلہا اٹھے۔ ایک طرف یہودیوں کے اقتصادی حالات دن بہ دن خُوب سے خُوب تر ہوتے چلے جارہے تھے، تو دوسری طرف انصار قبائل میں بھی خوش حالی آتی جارہی تھی اور ہرگزرتے وقت کے ساتھ اُن کے مالی حالات بہتر ہوتے چلے جارہے تھے۔
جسے یہودی اپنے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھنے لگے تھے۔ پھر اُن کے گھمنڈ، کینہ پروری اور سازشی طبیعت کے باعث بہت جلد دونوں قبائل کے درمیان ایسی خوف ناک جنگ کے شعلے بھڑکے، جس نے اُن کی قوت کو پاش پاش کردیا۔ ایک سو بیس برس تک جاری رہنے والا یہ خونی معرکہ ’’جنگِ بعاث‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
یہودیوں کے مدینے میں رہائش اختیار کرنے کی وجہ: یہودیوں کی اسلام دشمنی پر بات کرنے سے پہلے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں اہلِ یہود نے مدینہ (یثرب) کو اپنا مسکن اور مدینے کے اطراف بڑے بڑے محفوظ قلعے کیوں بنائے؟ یہود نے مدینے میں مستقل قیام کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے چار بڑے اہم اقدامات کیے۔
1۔ معاشی معاملات کو مضبوط کرنے کے لیے زراعت پر خصوصی توجّہ کے ساتھ اناج کی ذخیرہ اندوزی پربھی توجّہ دی۔
2۔ مقامی قبائل کو آپس میں لڑواتے رہے اور اُن کی افرادی قوت کو اپنے کھیت کھلیانوں میں استعمال کرتے رہے۔
3۔ انھوں نے یہودی بچّوں کی دینی تعلیم پر بھرپورتوجّہ دی۔ مدینے کے مضافات میں دینی مدرسے قائم کیے، جن میں توریت اور زبور کی تعلیم دی جاتی تھی، اُن کی یہ مقدّس کتابیں اصل صُورت میں تو دست یاب نہیں تھیں، لہٰذا یہ اپنی مرضی و منشا کے مطابق تبدیل شدہ نسخوں پر تعلیم دیتے تھے۔ اُن کی اس دینی تعلیم کو اگر ایک جملے میں ادا کیا جائے، تو اس کا لُب لباب یہ تھا کہ دنیا کا اصل اور سچّا مذہب ’’یہودیت‘‘ ہے۔ جنّت صرف یہود و نصاریٰ کے لیے بنائی گئی ہے، جب کہ دیگر مذاہب کے لوگوں سے جنگ کرنا اور انہیں قتل کرنا عین عبادت ہے۔
4۔ یثرب (مدینہ) کے چاروں جانب مضبوط ترین قلعے بنانے کا مقصد یہ تھا کہ انہیں اس بات کا یقین تھا کہ اُن کی کُتب کے مطابق آخری نبیؐ کا نزول یثرب سے ہوگا اورآخری نبیؐ، بنی اسرائیل سے ہوگا، اس کی قیادت میں دنیا کے تمام مذاہب سے جنگ کی جائے گی، خاص طور پرعربوں کا صفایا کردیں گے اور انہیں قومِ عاد اور ثمود کی طرح قتل کردیں گے۔