بنی اسرائیل کا موت کے خوف سے فرار: ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ ’’بھلا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا، جو ہزاروں کی تعداد میں تھے اور موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل بھاگے تھے، تو اللہ نے انہیں حکم دیا کہ مرجائو۔ پھر انھیں زندہ بھی کردیا۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ بے حد مہربان ہے، لیکن اکثر لوگ شُکر نہیں کرتے۔‘‘ (البقرہ، آیت 243)۔ تفسیری روایات میں یہ واقعہ بنی اسرائیل کے زمانے کا ہے، اُس وقت اُن کے پیغمبر، حضرت حزقیل علیہ السلام تھے، جن کی دُعا سے اللہ نے مُردوں کو زندہ فرمادیا۔ اس سلسلے میں مفسّرین نے عموماً دو روایات کا ذکر کیا ہے۔
ایک یہ کہ حضرت حزقیل علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے کہا کہ ’’تم سب تیار ہوجاؤ، ہم سب مشرکین سے جنگ کرنے جائیں گے۔‘‘ بنی اسرائیل نے جنگ و جہاد کی بات سُنی، تو وہ اپنی جانوں کے خوف سے بھاگ کھڑے ہوئے اور آبادی سے دُور ایک محفوظ وادی میں جا چُھپے۔ اُن کی اس نافرمانی پر اللہ نے اُن پر موت طاری کردی، چند دن بعد حضرت حزقیل علیہ السلام کا اُدھر سے گزر ہوا، تو آپ نے اللہ سے دُعا کی کہ ’’یااللہ! انہیں دوبارہ زندہ فرمادے، تاکہ یہ دوسروں کے لیے نمونۂ عبرت بنیں۔‘‘ دُعا قبول ہوئی اور وہ زندہ ہوگئے۔ (تفسیرکبیر، 2/283)۔
دوسرا واقعہ اس طرح بیان ہوا کہ بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں طاعون کی وبا پھیل گئی، جس سے دس ہزار کے قریب لوگ، موت کے خوف سے گھبراکر دو پہاڑوں کے درمیان ایک وادی میں جاچُھپے۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ نے دو فرشتے بھیجے، جو وادی کے دونوں سروں پر آکر کھڑے ہوئے اور ایک ایسی آواز نکالی کہ جس کی دہشت سے سب کے سب بہ یک وقت ہلاک ہوگئے۔ کچھ دنوں بعد حضرت حزقیل علیہ السلام کا اُدھر سے گزر ہوا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے اُن کے دوبارہ جی اُٹھنے کی دُعا فرمائی، جو قبول ہوئی اور وہ زندہ ہوگئے۔
سورۃ البقرہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے، ترجمہ:’’اور جب حضرت ابراہیمؑ نے کہا کہ اے میرے پروردگار! مجھے دکھا کہ تُو مُردوں کو کس طرح زندہ کردے گا؟ تو اللہ نے فرمایا۔ ’’اے ابراہیم!ؑ کیا تمہیں ایمان نہیں؟‘‘ عرض کیا، ’’اے پروردگارِعالم! ایمان تو ہے، لیکن میرے دل کی تسکین ہوجائے گی۔‘‘ اللہ نے فرمایا، ’’اچھا چار پرندے لے لو اور اُن کے ٹکڑے کرڈالو۔ پھر ہر پہاڑ پراُن کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دو۔
پھر انہیں پُکارو۔ وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آجائیں گے اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ غالب حکمتوں والا ہے۔‘‘ (البقرہ، آیت 260)۔ چناں چہ بعض مخصوص حالات میں ربّ العالمین اپنے انبیاء و رسل کی تصدیق و تائید کے لیے دنیا میں بھی مُردوں کو زندہ فرمادیتا ہے۔ موت کے منہ سے نکال کر زندگی عطا فرمادیتا ہے۔ موت و زندگی ربّ کا اختیار ہے، جسے جب چاہے زندگی دے، جب چاہے موت۔
قومِ یہود دوبارہ پرانی ڈگر پر: حضرت یوشع علیہ السلام نے سرزمینِ فلسطین کو بنی اسرائیل کے قبیلوں میں تقسیم کردیا تھا، تاکہ یہ لوگ آپس میں امن وسکون اور اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہیں، لیکن ہوا یہ کہ جیسے ہی حضرت یوشع کی وفات ہوئی، بنی اسرائیل دوبارہ اپنی پرانی ڈگر پرآگئے، دین سے انحراف کرکے طرح طرح کی بدعتیں ایجاد کرلیں، توریت میں اپنی مرضی سے ردّوبدل کرکے بُتوں کی پُوجا کو اپنے لیے جائز قرار دے دیا۔ حالاں کہ انبیائے کرام کا نزول ہوتا رہا، وہ انہیں روکتے رہے، لیکن وہ کفر و شرک سے باز نہ آئے۔
اللہ تعالیٰ نے اُن میں سے نبوت کا سلسلہ منقطع کرکے دشمنوں کو اُن پر مسلّط کردیا، کبھی اُن پر عمالقہ قابض ہوجاتے، کبھی فلسطین کے بدو حملہ آور ہوتے، کبھی اُن میں آپس ہی میں خوں ریز جنگ شروع ہوجاتی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اُن پر بحیرئہ روم کی وادیوں میں قومِ عمالقہ کے ایک ظالم و جابر حکم ران ’’جالوت‘‘ کو مسلّط کردیا، اس سفّاک بادشاہ نے بنی اسرائیل کے تمام سرکردہ افراد کو قتل کر ڈالا اور ایک بڑی تعداد کو غلام بناکر ساتھ لے گیا۔ بالآخربعض لوگوں کی دُعائوں سے شمویلؑ پیدا ہوئے۔ اللہ نے اُنہیں نبوت سے سرفراز فرمایا۔
بنی اسرائیل نے اُن سے مطالبہ کیا کہ کسی کو ہمارا بادشاہ مقرر کردیجیے، تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔ پیغمبر نے کہا ’’ممکن ہے کہ جہاد فرض ہونے کے بعد تم جہاد نہ کرو۔‘‘ لیکن انہوں نے عہد کیا کہ ہم ضرور جہاد کریں گے۔ چناں چہ جہاد فرض ہوا، تو سوائے تھوڑے لوگوں کے، باقی سب پِھرگئے۔ اور اللہ ظالموں سے خوب واقف ہے۔ (سورۃ البقرہ، آیت246)۔
قومِ یہود کا ایک بار پھر جہاد سے فرار: حضرت شمویل علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نےحضرت طالوت کو تمہارا بادشاہ مقررہ کردیا ہے۔‘‘ یہ سُن کر بولے، ’’یہ کیسے ممکن ہے، وہ ایک غریب مسکین سپاہی ہے، وہ ہم پر کیسے حکومت کرسکتا ہے؟‘‘ نبی ؑ نے کہا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے اسی کو مقرر فرمایا ہے، اس لیے کہ قیادت و سیادت کے لیے مال سے زیادہ علم و عقل اور جسمانی قوت کی ضرورت ہوتی ہے، جو طالوت میں تم سب سے زیادہ ہے۔‘‘ حضرت طالوت بادشاہ مقرر کردئیے گئے تھے۔ بادلِ نخواستہ قوم کے ابتر حالات کی وجہ سے بنی اسرائیل بھی خاموش ہوگئے۔
حضرت طالوت کے لیے سب سے بڑا چیلنج جالوت تھا، چناں چہ انہوں نے جالوت سے جنگ کا اعلان کردیا۔ حضرت طالوت بنی اسرائیل کی نافرمانی، عہد شکنی اور منافقت سے واقف تھے، چناں چہ جب وہ بنی اسرائیل کا لشکر لے کر نہرِ اردن کے کنارے پہنچے، تو قوم سے فرمایا کہ ’’جو شخص اس نہر سے سیراب ہوکر پانی پیے گا، وہ میری جماعت میں نہیں رہے گا، اگر کوئی چلّو بھر پانی پی لے، تو کوئی بات نہیں۔‘‘ لیکن جب یہ لوگ نہر پر پہنچے، تو چند افراد کے علاوہ سب نے خوب پانی پی لیا۔ حضرت طالوت جب نہر سے گزرگئے، تو وہ لوگ کہنے لگے کہ ’’آج تو ہم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ ہم جالوت اور اس کے لشکر سے لڑیں۔‘‘ لیکن اُن ہی میں سے ایک چھوٹی جماعت نے جہاد کا فیصلہ کرلیا۔ حضرت براء بن عازبؓ نے فرمایا کہ ’’ہم آپس میں یہ گفتگو کرتے تھے کہ اصحابِ بدر کی تعداد بھی اتنی ہی ہے جتنی اصحابِ طالوت کی تھی۔‘‘ (بخاری 3599,3598)۔
غریب چرواہا دنیا کا عظیم بادشاہ بن گیا: دونوں لشکر آمنے سامنے آگئے، حضرت طالوت نے اپنے ثابت قدم رہنے اور دشمن پر غالب آنے کی دُعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کی دُعا قبول کی اور انہوں نے جالوتیوں کو شکست دے دی، پھر حضرت دائود علیہ السلام کے ہاتھوں جالوت قتل ہوا۔ اور اللہ تعالیٰ نے حضرت دائودعلیہ السلام کو مملکت و حکمت اور جتنا کچھ چاہا، علم بھی عطا فرمایا۔ (سورۃ البقرہ،آیت251)۔ حضرت دائودؑ بنی اسرائیل کے بادشاہ، حضرت طالوت کے لشکر میں ایک کم عُمر نوجوان تھے۔
نَوعُمر ہونے کی وجہ سے انہیں اسلحہ نہیں دیا گیا تھا۔ چناں چہ وہ اپنی غلیل کے ساتھ جنگ میں شریک تھے اور پھر اسی نوجوان کی غلیل سے گولی کی طرح نکلے پتھر نے جالوت کے متکبّر سر کو پاش پاش کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت دائودؑ کو نبوت اور رسالت کے ساتھ حکومت بھی عطا فرمائی تھی، آپ فنِ خطابت کے بھی ماہر تھے، لہٰذا درس و تبلیغ اور وعظ و نصیحت کے ذریعے بنی اسرائیل میں جذبۂ جہاد بے دار کرکے انہیں کفّار و مشرکین کے ساتھ جنگ پر آمادہ کیا۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ ’’اور ہم نے اس (حضرت دائود علیہ السلام) کی حکومت کو مضبوط کیا اور انہیں حکمت، نبوت اور فیصلے کی قوت عطا فرمائی۔‘‘ (سورئہ صٰ، آیت 20)۔ اور پھر بہت تھوڑے عرصے میں فلسطین، عراق، شام، دمشق، شرقِ اردن اور فرات تک جزیرۃ العرب کے بیش تر علاقے حضرت دائودؑ کے زیرِنگیں آچکے تھے۔ یوں ایک غریب چرواہا دنیا کا عظیم بادشاہ بن گیا۔
نافرمان یہودیوں کی شکلیں مسخ ہوگئیں: مفسّرین لکھتے ہیں کہ حضرت دائود علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں کی صورتیں مسخ ہونے کا واقعہ پیش آیا۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ ’’اور تم اُن لوگوں کو خُوب جانتے ہو، جو تم میں سے ہفتے کے دن (مچھلی کا شکار کرنے) میں حد سے تجاوز کرگئے تھے، تو ہم نے اُن سے کہا کہ ذلیل و خوار بندر ہوجائو۔‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت 65)۔ بنی اسرائیل کے لیے ہفتے کا دن صرف عبادت کے لیے مخصوص تھا اور اُس دن مچھلی کے شکار سمیت ہر دنیاوی کام ممنوع تھا، لیکن سمندر کے کنارے آباد مچھلی کے شوقین اُن لوگوں نے اپنی فطرت و عادت سے مجبور ہوکر حکمِ الٰہی کی نافرمانی کی، جس پر اللہ تعالیٰ نے اُن کی شکلیں مسخ کردیں۔
مفسّرین لکھتے ہیں کہ اس مقام پر بنی اسرائیل میں دو جماعتیں بن گئی تھیں، ایک وہ لوگ تھے، جو حکم عدولی کرتے اور کُھلم کُھلا ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑ کر نافرمانی کے مرتکب ہوتے، اور دوسری جماعت علماء و صلحاء کی تھی، جو انہیں اس کام سے روکتے تھے۔ یہاں تک کہ بستی بھی دو حصّوں میں تقسیم ہوچکی تھی اور آپس کے باہمی تعلقات بھی منقطع ہوگئے تھے۔ ایک روز محسوس ہوا کہ نافرمانوں کی بستی میں مکمل سنّاٹا ہے۔ جب وہاں جاکر دیکھا گیا، تو اُن سب کی صُورتیں مسخ ہوچکی تھیں۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ اُن کے جوان، بندر اور بوڑھے، خنزیر بنادیے گئے تھے، مگر وہ اپنے رشتے دار انسانوں کو پہچانتے تھے اور اُن کے قریب آکر روتے تھے۔ (معارف القرآن، 1/243)۔
ایسی قوم، جس کی نسل نہیں چلتی: حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اپنے زمانے کے بندروں اور خنزیروں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ’’کیا یہ وہی مسخ شدہ شکلوں والے یہودی ہیں؟‘‘ آپ نے فرمایا۔ ’’اللہ تعالیٰ جب کسی قوم میں مسخ صُورت کا عذاب نازل کرتا ہے، تو اُس کی نسل نہیں چلتی۔ (بلکہ وہ چند روز ہی میں ہلاک ہوکر ختم ہوجاتے ہیں۔) بندر اور خنزیر دنیا میں پہلے ہی سے موجود تھے اور آج بھی ہیں، مگر مسخ شدہ بندروں اور خنزیروں کا اُن سے کوئی جوڑ نہیں۔‘‘ (معارف القرآن، 243/1)۔
زبور کا نزول: بنی اسرائیل کی رشد و ہدایت کے لیے اصل اور اساس توریت تھی، لیکن حالات و واقعات اور زمانے کے تغیّرات کے پیشِ نظر اللہ نے حضرت دائود علیہ السلام پر ’’زبور‘‘ کا نزول فرمایا۔ زبور اللہ کی حمد سے معمور تھی اور حضرت دائود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ایسا لہجہ اور سحرآگیں لحن عطا فرمایا تھا کہ جب زبور کی تلاوت فرماتے، تو جِن و انس حتیٰ کہ وحوش و طیور تک وجد میں آجاتے، اس لیے آج تک ’’لحنِ دائودی‘‘ ضرب المثل ہے۔ ’’البدایہ والنہایہ‘‘،مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ابوموسیٰ اشعریؓ کا حُسنِ صوت دیکھتے، تو ارشاد فرماتے۔ ’’ابو موسیٰؓ کو اللہ تعالیٰ نے لحنِ دائودی عطا فرمایا ہے۔‘‘ (البدایہ والنہایہ، 11/2)۔
زبوردراصل توریت ہی کا ایک حصّہ ہے، جسے توریت کی تکمیل کے لیے نازل کیا گیا تھا۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے مختلف جگہوں پر توریت، انجیل اور زبور کو اللہ کی وحی فرمایا اور بنی اسرائیل کی اس گستاخی کا بھی ذکر کیا کہ یہود نے دیدہ، دانستہ اللہ کی ان مقدّس کُتب میں اپنی مرضی و منشا سے ردّوبدل کر ڈالا اور یہ تحریف اتنے وسیع پیمانے پر کی کہ اصل اور نقل کا فرق جانچنا ناممکن ہوگیا، بلکہ ہردَور کے یہودی ردّوبدل کے اس عمل کوبارہا دُہراتے رہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ ربّ العزت کا ارشاد ہے۔ ’’بعض یہودی، توریت، انجیل اور زبور کے کلمات کو اُن کی اصل حقیقت سے بدلتے اورپھیرتے ہیں۔‘‘ (سورۃ النساء، آیت 46)۔
بیت المقدس کی تعمیر: حضرت داؤد علیہ السلام کے فرزندِ ارجمند حضرت سلیمان علیہ السلام بھی بنی اسرائیل پر مبعوث کیے گئے۔ وہ اللہ کے نبی اور ہفت اقلیم کے بادشاہ تھے۔ اللہ نے انھیں ایسی عظیم بادشاہت سے نوازا، جو اُن سے پہلے نہ کسی کو نصیب ہوئی، نہ ہوگی۔ انسانوں کے علاوہ جنّات و شیاطین، چرند، پرند، حیوانات اور ہوا سمیت دنیا کی ہر شئے اُن کی مطیع و فرماں بردار تھی۔ سرکش جنّات کے ذریعے بیت المقدس کی تعمیراُن کا بہت بڑا کارنامہ تھا۔
بخت نصر کے ہاتھوں یہودیوں کا قتلِ عام: چھٹی صدی قبلِ مسیح کی بات ہے، جب بنی اسرائیل کی سرکشی، نافرمانیاں، اخلاقی گراوٹ، بغض و عناد اور مشرکانہ حرکتیں حد سے تجاوز کرچکی تھیں، ہر طرف ظلم و جبر، فساد اورلُوٹ مار کا بازار گرم تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اُس زمانے کے پیغمبروں کے ذریعے بنی اسرائیل کو متنبہ فرمایا کہ وہ اپنی ان قبیح حرکتوں سے باز آجائیں۔ ورنہ شدید عذابِ الٰہی کا سامنا کرنا ہوگا۔ باربار کی تنبیہہ کے باوجود ان کی بداعمالیاں اور کفر و عناد بڑھتا چلا گیا، تو قومِ عمالقہ کے ایک ظالم و سفّاک بادشاہ ’’بخت نصر‘‘ کو اُن پر مسلّط کردیا گیا۔
یہ مجوسی بادشاہ بابل سے بڑی فوج کے ساتھ آندھی اور طوفان کی طرح راستے کی حکومتوں کو پامال کرتا ہوا فلسطین کی طرف بڑھا اور مختصر سے وقت میں پورے علاقے کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ توریت کے مطابق، چالیس ہزار علماء قتل کردیے گئے۔ یہاں تک کہ توریت کے ایک عالم کو بھی زندہ نہیں چھوڑا گیا۔ بخت نصر نے 80ہزار یہودیوں کو قیدی بنایا اور انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح ریوڑ کی صورت ہنکا کر بابل لے گیا۔ بخت نصر کے حکم پراس کے خوں خوار سپاہیوں نے بیت المقدس میں حضرت سلیمانؑ کی تمام تر باقیات اور نشانیوں کو تباہ و برباد کردیا۔ بیت المقدس سے ملحق لاکھوں کی تعداد میں نادرو نایاب کُتب نذرِ آتش کردیں، حتیٰ کہ تابوتِ سکینہ سمیت توریت کے اصل نسخے تک غائب کردیے۔ (جاری ہے)