لوٹن، کراچی (شہزاد علی، جنگ نیوز) اسرائیل کو اسلحے کی فروخت سے روکنے کے لئے بعض برطانوی سیاست دانوں کے بعد اب اعلیٰ سابق ججوں نے بھی اسے روکنے کی اپیل جاری کر دی ہے۔برآمدات کو ختم کرنے اور سفارتی و فوجی پابندیاں عائد کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے تین سابق ججوں نے برطانیہ کی حکومت سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت بند کرنے کا مطالبہ کرنے کے لئے 600 سے زائد قانونی ماہرین کے ساتھ شمولیت اختیار کی ہے۔ اس حوالے وزیر اعظم کو لکھے گئے خط میں انہوں نے کہا ہے کہ برآمدات کو ختم ہونا چاہئے کیونکہ غزہ میں نسل کشی کے ممکنہ خطرے پر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کا خطرہ ہے۔ خیال رہے کہ ایک فضائی حملے میں سات امدادی کارکنوں کی ہلاکت کے بعد وزیراعظم کو پہلے ہی متعدد سیاسی شخصیات کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب غزہ کے تنازعے میں اس کا طرز عمل نئی بین الاقوامی جانچ پڑتال کی زد میں آ رہا ہے، سپریم کورٹ کی سابق صدر لیڈی ہیل ان 600 سے زیادہ وکلاء، ماہرین تعلیم اور ریٹائرڈ سینئر ججوں میں شامل ہیں، جنہوں نے 17 صفحات پر مشتمل ایک مکتوب پر دستخط کئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "نسل کشی کنونشن کی ممکنہ خلاف ورزیوں سمیت بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزیوں میں برطانیہ کے ملوث ہونے سے بچنے کے لئے سنجیدہ کارروائی کی ضرورت ہے۔ دیگر دستخط کنندگان میں سپریم کورٹ کے سابق جسٹس لارڈ سمپشن اور لارڈ ولسن کے علاوہ نو دیگر ججز اور 69 سینئر بیرسٹر شامل ہیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ حکومت کو بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے جو اقدامات کرنا ہوں گے، ان میں یہ اقدامات شامل ہیں کہ فلسطینی پناہ گزینوں کے لئے اقوام متحدہ کی ایجنسی، UNRWA کی فنڈنگ کو بحال کرنا، جب اس کے ملازمین کو اسرائیل پر 7 اکتوبر کے حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں معطل کیا گیا تھا۔ فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی پر اکسانے والے بیانات دینے والے افراد اور اداروں پر پابندیاں عائد کرنا،اسرائیل کے ساتھ جاری سفارتی اور "بہتر تجارتی معاہدے" کے مذاکرات کو معطل کرنا، برطانیہ کے موجودہ تجارتی معاہدے کو معطل کرنے اور اسرائیل پر "پابندیوں کے نفاذ پر غور" کرنے کا جائزہ شروع کرنا ہے۔