غضب خدا کا صبح کے نو بج چکے ہیں لیکن اب تک بہو صاحبہ کا سویرا نہیں ہوا۔ باورچی خانے میں ابھی تک سناٹا پڑا ہوا ہے۔ سلطانہ بیگم باورچی خانے میں آئیں تو یہ دیکھ کر کلس گئیں تھیں کہ بہو نے کام شروع نہیں کیا ۔انھوں نے برتنوں کو کچھ اٹھا پٹخ کیا اور اتنی دیر میں ارفعہ بھاگی دوڑی، کچھہ گھبرائی سی کچن میں داخل ہوئی تھی۔
’’امی آپ نے ناشتہ کر لیا ؟‘‘
’’شکر ہے کچن میں قدم رنجہ فرما لیا گیا ۔‘‘
’’میں، میں آپ کے لیے ناشتہ بناتی ہوں ۔ ‘‘
’’جلدی کرلو، پھر کام والی آجائے گی، تمھیں پتا ہے میں اس کے آنے سے پہلے ناشتہ کر لیتی ہوں ۔ یہ پھیلا بکھرا باورچی خانہ مجھے سخت ناپسند ہے ۔ ’’ وہ تیوری چڑھا کر کہہ رہی تھیں ۔‘‘ حد ہوگئی کئے سال گزر گئے لیکن اب تک اس گھر کے طور طریقے نہ اپنا سکیں۔’’ باورچی خانے سے نکلتے وہ بڑبڑارہی تھیں۔ اور ارفعہ صبر کے گھونٹ بھرتی کام میں مشغول ہو چکی تھی۔
ساری رات چھوٹو کے ساتھ جاگ کر گزاری تھی ، قے ، موشن نے بچے کو توبے حال کیا ہی تھا، اس کو صاف کر کر کے اور پریشان ہو ہو کر اس کی اپنی حالت بھی خراب ہو چکی تھی۔ میاں صاحب نے بھی آدھی رات تک ساتھ دیا، پھر صبح دفتر میں ضروری میٹنگ میں شرکت کی وجہ سے سو گئے۔
فجر میں کہیں جا کر اس کی طبیعت سنبھلی تو وہ سویا۔ دل تو چاہ رہا تھا کہ خود بھی سو جائے لیکن گڑیا کا ماہانہ ٹیسٹ تھا، اسے اسکول بھیجنا بھی ضروری ، سو اس کو اُٹھا کر اس کی دہرائی کروائی، اس کو روانہ کر کے میاں صاحب کو دفتر کی تیاری کروائی وہ سدھارے، تب کہیں جا کر وہ بستر پر لیٹی تو لمحہ بھر میں غافل ہو چکی تھی۔
ساس کو ناشتہ دے کر وہ گھریلو کاموں میں جت گئی تھی۔ساتھ ساتھ چھوٹو کو بھی دیکھتی گئی۔ اپنے ناشتہ کا تودھیان بھی نہ گیا اور نہ کسی نے ہمدردی کا اظہار کیا۔ ابھی روٹی پکا رہی تھی جب فون پر ہونے والی گفتگو اس کے کان میں پڑی تھی ، نند اپنی بیٹی کے یرقان کی وجہ سے بوکھلا رہی تھی اور ساس امی بیٹی کو میکے آنے کا مشورہ دے رہی تھیں ۔ کہ سکون سے ماں کے گھر آ کر رہے کہ وہاں تو ساس، نندیں اسے دو گھڑی آرام نہیں کرنے دیتیں ، بچے کی وہ کیا تیمارداری کر سکے گی۔ اس کی ساس تو ۔۔۔۔۔۔۔!!
ارفعہ نے سب سنا، ٹھنڈی سانس لی اور سر جھٹک کر روٹی بیلنے لگی۔ یہ تو معمول کی زندگی تھی۔
مندرجہ بالا واقعہ ہرگز حیرت انگیز ، افسوس ناک اور انوکھا نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو ہم سب کے گھروں کا ایک انتہائی معمولی اور غیر اہم قصہ ہے جو روز مرہ کی زندگی کا حصہ ہے۔ ایک عورت ، جس کے دل میں ممتا کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجزن ہوتا ہے۔ وہ ماں کے روپ میں فرشتوں جیسی عظیم شخصیت بن جاتی ہے۔ جو اپنی ہر اولاد کے لیے نرم رو ، درگزر اور شفیق ہے، جو اولاد کی ہر تکلیف پر اس سے زیادہ تڑپتی ہے۔ بیٹا ہو یا بیٹی اس کے لیے ان میں کوئی تخصیص نہیں۔
اولاد کے دکھ سکھ ، رنج وغم ،خوشی و مسرت ماں کے لیے بھی اتنا اہم ہے۔ وہ بچوں کی خوشی میں خوش اور تکلیف میں درد محسوس کرتی ہے ۔ حد تو یہ کہ اولاد کی اولاد ہو تو مزید محبت و شفقت کا حصہ سمیٹتی ہے پھر ۔۔؟ پھر کیا وجہ ہے کہ وہی عورت جب ساس کے معتبر رشتہ کے روپ میں ڈھلتی ہے تو اس کی وہ ازلی ممتا ، وہ نرمی ، گرمی میں تبدیل ہو جاتی ہے اور شفقت، مشقت دینے کا حکم صادر کرتی ہے ۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
اگرچہ یہ معاملہ ہر ایک پر صادق نہیں آتا اور بہت سی خواتین جو ساس بن چکی ہیں وہ اس مثال سے مستثنیٰ ہیں، لیکن چونکہ ہم بات معاشرے کے ایک عمومی رویہ کی کرتے ہیں تو یہاں بھی بات ان ساسوں کی ،کی جائے گی جو ماں کے روپ میں نرم لیکن ساس کے رشتے میں بندھتے ہی سخت اور بے رحم بن جاتی ہیں ۔ اپنی بیٹیوں کی جو تکلیف ان سے برداشت نہیں ہوتی وہ بہو کی محسوس بھی نہیں ہو پاتی۔
ایک بیٹی اپنی ماں کے جن اوصاف پر رطب اللسان ہوتی ہے،اسی کی بہو ، اسی ماں کی سنگدلی و بے دردی کے قصے اپنے میکے میں نشر کر رہی ہوتی ہے۔ ایک ماں کا رویہ اپنی بیٹی کے لیے جس سلوک کا مستحق ہوتا ہے ، وہی دوسرے کی بیٹی کے لیے کیوں متعین نہیں ہوپاتا ۔؟ ایک ہی طرح کے حالات سے گزرتے ہوئے، زاویہ نظر مختلف کیسے ہو جاتا ہے، اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے۔
آپ کسی بھی لڑکی سے اس کی ماں کے متعلق سوال کریں، وہ اپنی ماں کو دنیا کی سب سے اچھی ماں کہے گی۔ اس کی ماں اس کی رول ماڈل ہوں گی۔ اور یہ بالکل درست ہے ، ایسا ہونا بھی چاہیے ۔ کسی بیٹی کے لیے اس کی ماں سے بڑھ کر کوئی خوب صورت رشتہ نہیں ، لیکن یہی بات ہم کسی بہو سے اس کی ساس کے متعلق پوچھیں تو آپ کا کیا خیال ہے ، جواب کیا ہوگا، کیا وہ بھی اپنی ساس کو آئیڈیلائز کرے گی ؟ یا اس کے پاس تو ساس کے بارے میں بتانے کو بہت کچھ ہوگا۔
یہ فارمولا ہر کسی پر لاگو نہیں ہوتا لیکن حقیقت تلخ صحیح ،مگر یہی ہے۔ جو عورت ماں کے روپ میں شہد ومٹھاس میں ڈوبی ہو، وہ اچانک ساس کا چولا پہن کر چنگاری کیوں بن جاتی ہے ، جس کی وجہ سے گھروں کے بکھرنے ، ٹوٹنے کی رفتار کئی میل (کیسز) فی گھنٹہ ہو چکی ہے۔ فیملی کورٹ میں جا کر دیکھیں ، خلع و طلاق کے کیسز کا انبار جمع ہو رہا ہے۔
ہم بھی عورت ہیں ہمیں بھی اس مسئلہ کی سنگینی کو سنجیدگی سے لینا ہے۔ بیٹی کی آئیڈیل ماں کے ساتھ ، بہو کی آئیڈیل ساس بھی بنیں۔ اسی طرح بہویں بھی ، جیسے اپنے گھر میں اطاعت گزار بیٹی ہوتی ہیں، اسی طرح بہو کے روپ میں بھی فرمانبردار بیٹی کی صورت اختیار کریں، تا کہ کوئی گھر ریت کی دیوار نہ بننے پائے۔ عورت اپنے چاروں روپ میں عظیم خاتون ہے بس تھوڑے فہم و فراست، سمجھ اور عقل کی رسائی چاہیے۔