اسلام آباد (انصار عباسی) آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اپنی 2022-23ء کی سالانہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ نادرا نے 3؍ کروڑ سمارٹ کارڈز (شناختی کارڈز) کی خریداری کیلئے سیکورٹی ایجنسیوں سے حتمی بولی دہندہ کی سیکورٹی کلیئرنس حاصل نہیں کی تھی۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے مالی سال 2022-23 کی جاری کردہ آڈٹ رپورٹ کے مطابق، تین کروڑ سمارٹ کارڈز کی خریداری کی فائل کی جانچ پڑتال سے معلوم ہوا ہے کہ نادرا انتظامیہ کو چاہئے تھا کہ وہ حتمی منتخب بولی دہندہ کے حوالے سے سرکاری ایجنسیوں سے سیکورٹی کلیئرنس حاصل کرتی۔
آڈیٹرز نے 29؍ ستمبر 2022ء کو نادرا انتظامیہ سے کہا کہ سمارٹ کارڈز کی خریداری کے حوالے سے کسی بھی متعلقہ سرکاری انٹیلی جنس ادارے سے کلیئرنس کا ریکارڈ دیا جائے تاہم یہ ریکارڈ آڈٹ کیلئے نہیں دیا گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیکیورٹی ایجنسیوں سے کلیئرنس نہیں لی گئی تھی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ بولی دہندگان کی جانب سے جمع کرائی گئی بولیوں کا بھی جائزہ لیا گیا اور یہ بات سامنے آئی کہ انتظامیہ نے بولی سے متعلق دستاویزات اور متعلقہ حوالہ جات کی سچائی اور صداقت کو یقینی بنانے کیلئے بولی کے دستاویزات کی تصدیق نہیں کی۔
نادرا کا سمارٹ کارڈ ایک سمارٹ قومی شناختی کارڈ ہے جس میں کارڈ کے اندر ایک چپ کا اضافہ ہوتا ہے جو معلومات کو محفوظ رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ سمارٹ کارڈ میں کارڈ کے مالک کا نام، تاریخ پیدائش، جنس اور دیگر ذاتی معلومات درج ہوتی ہیں جبکہ انگلیوں کے نشانات اور چہرے کی شناخت سمیت بایو میٹرک بھی موجود ہوتا ہے۔ اس میں کارڈ ہولڈر کے الیکٹرانک دستخط بھی ہوتے ہیں۔ جعل سازی کو روکنے اور کارڈ ہولڈر کی شناخت کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے کارڈ میں ہولوگرام اور مائیکرو ٹیکسٹ سمیت متعدد حفاظتی فیچرز شامل ہیں۔
رابطہ کرنے پر نادرا کی اعلیٰ انتظامیہ کا کہنا تھا کہ اس نے آڈیٹر جنرل کو بھیجے گئے جواب میں بتا دیا ہے کہ بولی کی دستاویز کی شق 11.6 ؍کے مطابق، منتخب بولی دہندہ کی سیکیورٹی کلیئرنس لازمی نہیں تھی۔ مزید برآں، منتخب بولی دہندہ سمارٹ کارڈز کا موجودہ سپلائر بھی ہے۔
نادرا کی سمارٹ کارڈ کے بارے میں آڈٹ رپورٹ 4566 صفحات پر مشتمل ایک جامع کنسولیڈیٹڈ آڈٹ رپورٹ برائے آڈٹ سال 2022-23 کا حصہ ہے اور یہ رپورٹ بظاہر شہباز شریف کی زیر قیادت پی ڈی ایم حکومت کے دور حکومت کا آڈٹ تھا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق، بولی کے دستاویزات اور متعلقہ حوالہ جات کے خطوط کی تصدیق نہ کرنا بے قاعدگی کے زمرے میں آتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 29؍ دسمبر 2022ء کو یہ معاملہ انتظامیہ کے روبرو اٹھایا گیا لیکن جواب کا تاحال انتظار ہے۔ اس رپورٹ کو حتمی شکل دینے تک ڈیپارٹمنٹل آڈٹ کمیٹی کا اجلاس منعقد نہیں کیا گیا۔
آڈٹ نے سیکیورٹی ایجنسیوں سے سیکیورٹی کلیئرنس حاصل نہ کرنے اور بولی کے دستاویزات کی شق 11.6 کے تحت مطلوبہ بولی کی تصدیق نہ کرنے کی وجوہات بیان کرنے کے علاوہ اس کی ذمہ داری کا تعین کرنے کی سفارش کی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سمارٹ کارڈز کی خریداری میں ایس او پیز کی خلاف ورزی کے نتیجے میں ساڑھے چار ملین امریکی ڈالرز کے سمارٹ کارڈز کی ضرورت سے زیادہ خریداری ہوئی۔
ایس او پیز کے مطابق، کسی بھی غیر متوقع صورتحال سے بچنے کیلئے اسٹاک میں 6؍ ماہ کے کارڈز کا ذخیرہ ہونا ضروری ہے۔ سمارٹ کارڈز کی خریداری کا کام قبل از وقت شروع ہونا چاہئے تاکہ بلاتعطل پیداوار کو یقینی بنایا جا سکے۔
نادرا کے سال 2020-21 اور 2021-22 کے آڈٹ کے دوران یہ دیکھا گیا کہ نادرا انتظامیہ نے 26؍ اپریل 2022ء کو میسرز ایس ای ایل پی کو 30؍ ملین سمارٹ کارڈز کی خریداری کیلئے 29.700؍ ملین ڈالرز جاری کیے۔
ریکارڈ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایس او پیز کو ملحوظ خاطر رکھے بغیر کارڈز کی مقدار اور اسٹاک کا تعین کیے بغیر ہی دوبارہ آرڈر دیدیا گیا۔
انتظامیہ نے تین کروڑ سمارٹ کارڈز کا آرڈر دیا جبکہ انتظامیہ کو چاہئے تھا کہ وہ صرف 2؍ کروڑ 54؍ لاکھ 63؍ ہزار 830؍ کارڈز کی خریداری کا آرڈر دیتی۔ ساڑھے چار ملین ڈالرز کے 45؍ لاکھ 46؍ ہزار 170؍ کارڈز اضافی خرید کیے گئے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ تین کروڑ سمارٹ کارڈز کی خریداری کیلئے پرچیز آرڈر جاری کرنے سے پہلے اور اس کے بعد کافی تعداد میں یعنی ایک کروڑ 66؍ لاکھ 73؍ ہزار کارڈز پہلے ہی دستیاب تھے۔
گزشتہ 19 ماہ سے سمارٹ کارڈز کی اوسط کھپت 8؍ لاکھ 98؍ ہزار 584؍ کارڈز فی ماہ ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو انتظامیہ کے پاس اوسطاً 19؍ ماہ کا اسٹاک موجود تھا۔ اس صورتحال میں دیکھیں تو کارڈز کی خریداری کی ضرورت نہیں تھی۔
اوسط کھپت کو دیکھیں تو جتنی مقدار کا آرڈر دیا گیا وہ تین سال سے زائد عرصہ کیلئے کافی تھی۔ کارڈز ایس او پیز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جلد بازی میں خریدے گئے جبکہ پروکیورمنٹ کا عمل شروع کرتے وقت 19؍ ماہ کا اسٹاک موجود تھا جس سے اس خریداری میں انتظامیہ کی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے۔
آڈٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ ایجنسیوں کی سیکورٹی کلیئرنس نہ لینے، بولی کی دستاویزات کی تصدیق نہ کرنے کے ساتھ اس معاملے میں ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔